بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ہائی والٹیج تاروں کے نیچے نماز پڑھنا،غصب شدہ زمین پر نماز ادا کرنا


سوال

 کیا جہاں سے ہائی وولٹیج بجلی کے تار گزرتے ہوں جس کے نیچے جان کا خطرہ ہو ایسی جگہ نماز ادا کرنا درست ہے؟

اور غصب کی ہوئی جگہ مسجد بناکر اور اس میں نماز ادا کرنے سے نماز ہو جاتی ہے؟ایسے میں اگر کوئی اکیلے گھر  میں نماز پڑھے تو کیسا ہے؟

جواب

1۔ نماز ادا ہوجائے گی، تاہم جان کو خطرہ میں ڈالنا درست نہیں، ایسی جگہ پر نماز ادا کرنی چاہیے جہاں دھیان و یک سوئی میسر ہو، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اونٹ باندھے گئے ہوں وہاں نماز ادا کرنے سے منع کیا ہے، شراحِ حدیث نے اس ممانعت کی وجوہات میں سے ایک وجہ اونٹ کے بدکنے کے خوف کا ہونے کو قرار دیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسی جگہ نماز ادا کرنی چاہیے جہاں یک سوئی میسر ہو۔

لہٰذا ہائی وولٹیج تار جہاں سے گزر رہے ہوں، ان کے نیچے کھلی فضا میں نماز ادا کرنا خود کو خطرے میں ڈالنا ہے، لیکن اگر مسجد پختہ اور محفوظ طور پر تعمیر ہو اور ماہرین و اہلِ تجربہ کی رائے میں خطرہ نہ ہو تو ایسی جگہ نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا، جیساکہ بہت سے مقامات پر شہری آبادیوں کے درمیان اور مرکزی شاہراہوں اور پلوں کے اوپر سے ہائی وولٹیج تار گزرتے ہیں، اور حکومت اور متعلقے محکمے اپنے تئیں تحفظ کی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لگاتے ہیں، ایسی صورت میں صرف خطرے کے اندیشے کی وجہ سے جماعت کی نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

2۔ کسی کی شخصی زمین پر مالک کی اجازت کے بغیر مسجد  بنانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، اگر کسی جگہ مسجد کی ضرورت ہو تو پہلے مالک سے اجازت لے لیں، اور مالکِ زمین کو چاہیے  کہ وہ اجازت دے دے، اس کی اجازت سے مسجد بننے کی صورت میں اس کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا، اور موت کے بعد راحت کا ذریعہ ہوگا، تاہم شخصی زمین پر مالک کی  اجازت کے بغیر مسجد بنانے کی صورت میں بنانے والا گناہ گار ہوگا، اور آخرت میں حساب دینا ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں غصب کی ہوئی زمین پر جان بوجھ کر کسی مجبوری کے بغیر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، اگرچہ نماز ادا ہوجائے گی۔ اور اگر سوال میں غصب کی ہوئی جگہ سے مراد غیر آباد سرکاری زمین ہے، جس میں عوام کا اجتماعی حق ہے اور وہ کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہے، تو اس کے حکم میں تفصیل ہے، وہاں نماز ادا کرنا مطلقاً مکروہ نہیں ہوگا، بعض صورتوں میں مکروہ ہوگا اور بعض میں اجازت ہوگی۔

مراقی الفلاح میں ہے:

"و تكره في أرض الغير بلا رضاه، و إذا ابتلي بالصلاة في أرض الغير و ليست مزروعةً أو الطريق إن كانت لمسلم صلى فيها، و إن كانت لكافر صلى في الطريق". ( كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص: ٣٥٨)

طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"( قوله: صلى فيها) لأن الظاهر أنه يرضي به لأنه ينال أجراً من غير اكتساب منه". ( كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص: ٣٥٨، ط: قديمي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصلاة في أرض مغصوبة جائزة و لكن يعاقب بظلمه، فكما كان بينه و بين الله تعالى يثاب، و ما كان بينه و بين العباد يعاقب، كذا في مختار الفتوي". ( كتاب الصلاة، الباب السابع، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة و ما لا يكره فيها، ١/ ١٠٩)

فتاوی شامی میں ہے:

"و في الواقعات: بنى مسجداً على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه حق العامة فلم يخلص  الله تعالى، كالمبني في أرض مغصوبة". ( كتاب الصلاة، مطلب في الصلاة في الأرض المغصوبة. و دخول البساتين و بناء المسجد في ارض الغصب، ١/ ٣٨١، ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں