بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غزوہ ہند کے بارے میں ایک تحقیق


سوال

مکرمی! سلام مسنون فتوی نمبر : 144004201440 میں مسند احمد کی جس روایت کے اشارے سے یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ غزوہ ہند حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا، اس میں اشارۃ کا ماخذ کون سا جزو ہے؟ متعین کرنے کی زحمت فرمائیں؛ کیوں کہ حدیث میں صرف دو جماعتوں کے متعلق احراز من النار کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور ان دونوں جماعتوں کا تذکرہ واو حرف عطف سے ہے، جو احناف کے نزدیک محض جمع کا تقاضہ کرتا ہے، قران وغیرہ کا نہیں۔ اور اگر کسی محدث نے اس طرح کی کچھ تشریح فرمائی ہو تو اس کی بھی نشان دہی فرمائیں، نوازش ہوگی!

جواب

تاریخ اسلام میں جن أئمہ ومحدثین  اور اکابر مؤرخین  جنہوں نے غزوہ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے  اس بات کی صریح دلیل ہے  کہ غزوہ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع  نہیں ہیں۔ بلکہ علمأ امت نے  اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انہیں نقل کیا ہے ۔ خاص کر امام نسائی جنہوں نے  سنن نسائی  میں غزوہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں غزوہ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔ امام  احمد نے اپنی مسند میں، امام بخاری نے تاریخ کبیر میں، اما م بیہقی  نے  سنن الکبری اور دلائل النبوۃ میں، امام حاکم نے مستدرک حاکم میں، امام طبرانی نے معجم الاوسط میں، امام سیوطی نے جمع الجوامع میں، امام  نووی نے  فیض القدیر میں،  امام ذہبی نے  تاریخ الاسلام میں، امام بغدادی نے  تاریخ بغداد میں،  اما ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں  غزوہ ہند سے متعلق  احادیث ذکر کی ہیں۔

لہذا اس روایت کو موضوع کہنا محل نظر ہے۔

غزوہ ہند کے متعلق مروی احادیث  میں چند درج ذیل ہیں:

۱۔  حدثنا أبو النضر حدثنا بقية حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال عصابتان من أمتي أحرزهم الله من النار عصابةتغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليه السلام.

مسنداحمد، باب مسندالانصار من حديث ثوبان 37/81، رقم: 22396 الرساله، سنن النسائي لشرح السيوطي، باب غزوة الهند 5،6/350 رقم 3175 دارالمعرفة، التاريخ الكبير للبخاري، باب عبدالاعلي 5/344 رقم: 7818،1747 العلمية.

ترجمہ : ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے غلام تھے ان سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی دوزخ کے عذاب سے بچائیگا، ان میں سے ایک ہندوستان مین جہاد کرے گا، دوسرا  حضرت عیسی علیہ السلام کے  ساتھ ہوگا۔

حکم: یہ حدیث حسن ہے ، البتہ یہ سند بقیۃ بن الولید کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن  اس کی متابعت موجود ہیں۔ اور سند کے بقیہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابوبکر بن ولید کے وہ مجھول الحال ہے، لیکن  عبد اللہ بن سالم جو کہ ثقہ ہے  انہوں نے ابوبکر بن ولید کی متابعت کی ہے۔ مسند احمد ۳۷/81۔

2- أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبيد الصفار، ثنا بشر بن موسى، ثنا خلف، عن هشيم، عن سيار بن أبي سيار العنزي، ح وأخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن أبي علي السقاء , وأبو الحسين علي بن محمد المقرئ قالا: أنبأ الحسن بن محمد بن إسحاق، ثنا يوسف بن يعقوب القاضي، ثنا مسدد، ثنا هشيم، عن سيار أبي الحكم، عن جبر بن عبيدة، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: " وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن أدركها أنفق فيها مالي ونفسي , فإن استشهدت كنت من أفضل الشهداء , وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر ".

(السنن الكبر للبيهقي، باب ماجاء في قتال الهند 9/176 دار الكتب العلمية، نسائي لشرح السيوطي، باب غزوة الهند 5،6/349 رقم:3173 دارالمعرفة، دلائل النبوة للبيهقي، باب قول الله –عزوجل- (وعد الله الذين آمنوا منكم الخ) 6/336 العلمية).

ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سو اگر میں شہید ہوگیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہونگا   اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہونگا۔

أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، قال : حدثنا زكريا بن عدي ، قال : حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن سيار (ح) قال : وأنبأنا هشيم ، عن سيار ، عن جبر بن عبيدة ، وقال عبيد الله : عن جبير ، عن أبي هريرة ، قال : وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند ، فإن أدركتها أنفق فيها نفسي ومالي ، فإن أقتل كنت من أفضل الشهداء ، وإن أرجع فأنا أبو هريرة المحرر.

(سنن النسائي المجتبي، باب غزوة الهند 6/42 رقم 3173 المطبوعات الاسلامية)

3- حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر الهند فقال: ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام  قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم وضحك ثم قال: هيهات هيهات."

(كتاب الفتن لنعيم بن حماد، باب غزوة الهند 409 رقم :1236 التوحيد)

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے  فرمایا: یقینًا تمہارا ایک لشکر  ہندوستان سے جنگ کرے گا،اور اللہ ان مجاہدین کو  فتح دے گا۔  حتی کہ وہ حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ۔پھر جب  وہ واپس  لوٹیں گیں تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے ۔

تو  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :  اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا، جب ہمیں اللہ تعالی فتح دے  دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور  میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام  میں آئے گا تو وہاں عیسی بن مریم سے ملاقات کرے گا۔

یارسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔

حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے۔

 4-حدثنا الحكم بن نافع عمن حدثه  عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الهند فيفتحها فيطئوا أرض الهند ويأخذوا كنوزها فيصيره ذلك الملك حلية لبيت المقدس ويقدم عليه ذلك الجيش بملوك الهند مغللين ويفتح له ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامهم في الهند إلى خروج الدجال.

(كتاب الفتن لنعيم بن حماد، باب غزوة الهند 409 رقم :1235 التوحيد)

ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا ایک بادشاہ  ہندوستان کی طرف  ایک لشکر روانہ  کرے گا ،  وہ اس كو فتح كریں گے پس مجاہدین ہند کی سرزمین کو پامال کر ڈالیں گے اس کے حزانوں پر قبضہ کرلیں گے پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المال کی تزیین کے  لیے استعمال کرے گا وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے رو برو پیش کرےگا اور وہ لشکر مشرق ومغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے۔

غزوہ ہند کا مصداق: غزوہ ہند کا ذکر کئی احادیث مبارکہ میں موجود ہے البتہ اس غزوہ کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے ، علامہ سندھی نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ حدیث میں عام مسلمانوں سے غزوہ ہند کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے نا کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ سے اسی وجہ سے بعض حضرات نے اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر مختلف مصداق ٹھہرائے ہیں جو مندرجہ ذیل مذکور ہے۔

  1. بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پہ مہم جوئی کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوس کو ہند پر حملہ سے قبل وہان کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لے بھیجا گیا،  البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، تاہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں جنگ ہوئی جس میں آپ کو کامیابی ہوئی۔(فتوح البلدان: ص۴۲۰، ناشر: مطبعہ مصریہ ازہر)
  2. بعض حضرات  نے محمد بن قاسم اور محمود سبکتگین کی ہندوستان کے علاقوں میں جو لڑائی ہوئی اس کو غزوہ ہند کا مصداق ٹھہرایاہے۔(فیض السمائی: ۳۶۰،۲، مکتبۃ الشیخ)
  3. کئی حضرات نے مختلف مصداق ٹھہرائے ہیں،  لیکن راجح قول یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا،  بلکہ حضرت امام مہدی اور حضر ت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا،  جیسا کہ کتاب الفتن میں ہے کہ ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹے  گی تو حضرت عیسی علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا، جب وہ واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔ (کتاب الفتن نعیم بن حماد: غزوہ ہند، ص۴۰۹، مکتبۃ التوحید)

سائل نے پوچھا ہے کہ مسند احمد  کی روایت کے کس جز  کا ترجمہ ہے ، اور اگر کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے ساتھ خاص کیا ہے اس کا حوالہ دے دیں تو عرض ہے کہ اگرچہ مسند احمد میں اس کے بارے میں صراحت منقول نہیں ہے ، لیکن امام نعیم بن حماد رحمہ اللہ کی کتاب الفتن کے حوالے سے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اس میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا ،اور خصوصًا فتوی کی ابتدا میں اس بات کی صراحت بھی کردی گئی ہے کہ تعیین مقاصدِ  دینیہ میں سے نہیں ہے ، بلکہ مختلف حضرات نے مختلف مصداق ذکر کیے ہیں ، انہیں میں سے ایک مصداق نعیم بن حماد رحمہ اللہ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہی مصداق قطعی ہے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں