بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غریب آدمی قربانی کے آخری دن مال دار ہوگیا یا مال دار شخص قربانی کے آخری دن غریب ہوگیا


سوال

قربانی کے تین دونوں میں سے اگر آخری دن کوئی صاحبِ نصاب ہوجاتا ہے تو آیا اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اور آخری کس وقت تک کا اعتبار ہوگا؟ مثلاً  اگر کوئی قربانی کے تیسرے دن بالکل غروب سے پہلے قربانی کے نصاب کا مالک بنا، اور اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ قربانی کا جانور خرید کر اسے ذبح کرسکے، تو کیا ایسی صورت میں بھی اس پر قربانی واجب ہوگی؟ اور پھر وہ اس صورت میں کیا کرے گا؟ یعنی صدقہ وغیرہ دے گا یا کیا کرے گا؟ یا اگلے سال قربانی کی قضا کرے گا؟

دوسری بات یہ کہ اگر ایک شخص پر پہلے سے قربانی واجب تھی اور پہلا دن گزر گیا،  لیکن اس نے قربانی نہیں کی اور پھر وہ صاحبِ نصاب نہیں رہا اور دوسرے تیسرے دن بھی اس کے پاس کوئی مال نہیں آیا تو کیا پھر بھی اس شخص پر قربانی واجب رہے گی یا اس سے قربانی ساقط ہوجائے گی؟

تیسری بات یہ کہ اگر کسی پر پہلے سے قربانی واجب نہیں تھی،  لیکن عید کے پہلے دن اس کے پاس مال آگیا اور وہ صاحبِ  نصاب ہوگیا،  لیکن قربانی کرنے سے پہلے اور تیسرے دن غروب سے پہلے پھر دوبارہ مال ختم ہوگیا تو کیا قربانی کا وجوب باقی رہے گا؟ یا قربانی ساقط ہوجائے گی؟

جواب

قربانی کا وقت  ایامِ نحر  (یعنی دس ، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ)  ہیں،  اور یہ دس  ذی الحجہ کے طلوع سے بارہ ذی الحجہ کی غروب تک  ہے۔ اور قربانی کا وجوب ان تین دنوں میں بغیر کسی تعیین کے پورے وقت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے، جس پر قربانی واجب ہو وہ ان تین دنوں میں سے کسی بھی وقت قربانی کرلے تو اس کی قربانی ادا ہوجائے گی۔

1۔۔  اگر غریب آدمی قربانی کے آخری دن یعنی بارہ ذی الحجہ کو غروب سے پہلے صاحبِ  نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی، اور اگر اس کو قربانی کا وقت نہ ملے تو اس کے ذمہ ایک متوسط بکرے/بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

2/3۔ اگر کوئی شخص  ایامِ  نحر کے پہلے دن میں مال دار /صاحبِ نصاب تھا، خواہ وہ ایامِ نحر سے پہلے ہی سے ہو  یا ایامِ نحر میں اس کے پاس کہیں سے مال آیا ہو،  لیکن ایامِ نحر ختم ہونے سے پہلے وہ غریب ہوگیا، اور آخری وقت تک وہ دوبارہ صاحبِ  نصاب نہیں ہوا تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

الفتاوى الهندية (5/ 293):
" منها: أنها تجب في وقتها وجوباً موسعاً في جملة الوقت من غير عين، ففي أي وقت ضحى من عليه الواجب كان مؤدياً للواجب، سواء كان في أول الوقت أو في وسطه أو آخره، وعلى هذا يخرج ما إذا لم يكن أهلاً للوجوب في أول الوقت، ثم صار أهلاً في آخره، بأن كان كافراً أو عبداً أو فقيراً أو مسافراً في أول الوقت، ثم صار أهلاً في آخره فإنه يجب عليه، ولو كان أهلاً في أوله ثم لم يبق أهلاً في آخره بأن ارتد أو أعسر أو سافر في آخره لاتجب، ولو ضحى في أول الوقت وهو فقير فعليه أن يعيد الأضحية، وهو الصحيح، ولو كان موسراً في جميع الوقت ثم صار فقيراً صار قيمة شاة صالحة ديناً في ذمته يتصدق بها متى وجدها".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 65):
"وأما وقت الوجوب فأيام النحر فلاتجب قبل دخول الوقت؛ لأن الواجبات المؤقتة لاتجب قبل أوقاتها كالصلاة والصوم ونحوهما، وأيام النحر ثلاثة: يوم الأضحى - وهو اليوم العاشر من ذي الحجة - والحادي عشر، والثاني عشر وذلك بعد طلوع الفجر من اليوم الأول إلى غروب الشمس من الثاني عشر ...

(منها) أنها تجب في وقتها وجوباً موسعاً؛ ومعناه أنها تجب في جملة الوقت غير عين كوجوب الصلاة في وقتها ففي أي وقت ضحى من عليه الواجب كان مؤدياً للواجب سواء كان في أول الوقت أو وسطه أو آخره كالصلاة، والأصل أن ما وجب في جزء من الوقت غير عين يتعين الجزء الذي أدى فيه الوجوب أو آخر الوقت كما في الصلاة وهو الصحيح من الأقاويل على ما عرف في أصول الفقه، وعلى هذا يخرج ما إذا لم يكن أهلاً للوجوب في أول الوقت ثم صار أهلاً في آخره بأن كان كافراً أو عبداً أو فقيراً أو مسافراً في أول الوقت ثم أسلم أو أعتق أو أيسر أو أقام في آخره أنه يجب عليه، ولو كان أهلاً في أوله ثم لم يبق أهلاً في آخره بأن ارتد أو أعسر أو سافر في آخره لايجب عليه، ولو ضحى في أول الوقت وهو فقير ثم أيسر في آخر الوقت فعليه أن يعيد الأضحية عندنا، وقال بعض مشايخنا: ليس عليه الإعادة.
والصحيح هو الأول؛ لأنه لما أيسر في آخر الوقت تعين آخر الوقت للوجوب عليه وتبين أن ما أداه وهو فقير كان تطوعا فلا ينوب عن الواجب، وما روي عن الكرخي - رحمه الله- في الصلاة المؤداة في أول الوقت أنها نفل مانع من الوجوب في آخر الوقت فاسد عرف فساده في أصول الفقه.
ولو كان موسراً في جميع الوقت فلم يضح حتى مضى الوقت ثم صار فقيراً صار قيمة شاة صالحة للأضحية ديناً في ذمته يتصدق بها متى وجدها؛ لأن الوجوب قد تأكد عليه بآخر الوقت فلايسقط بفقره بعد ذلك؛ كالمقيم إذا مضى عليه وقت الصلاة ولم يصل حتى سافر لايسقط عنه شطر الصلاة؛ وكالمرأة إذا مضى عليها وقت الصلاة وهي طاهرة ثم حاضت لايسقط عنها فرض الوقت حتى يجب عليها القضاء إذا طهرت من حيضها، كذا ههنا". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں