بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غارِ ثور کے واقعات کی تحقیق


سوال

رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کے موقع پر غارِ ثور میں تشریف لے گئے تھے، کیا اس وقت مکڑی نے غار کے دھانے جالا تن دیا تھا؟ اور کبوتر نے انڈے بچے دے دیے تھے؟ یہ ثابت ہے یا نہیں؟ اگر ثابت ہے تو کیا یہ اسی وقت اچانک ہوگیا تھا یا کبوتر نے پہلے سے گھونسلہ بناکر پہلے سے انڈے دیے ہوئے تھے؟ نیز کیا سانپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کاٹا تھا؟

جواب

مذکورہ سوال میں چند باتیں مذکورہیں، انہیں ذیل میں الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔مکڑی کا جالا تننا۔ 

۲۔کبوتر کا انڈے دینا۔ 

۳۔گھونسلہ بنانا۔

۴۔سانپ کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ڈسنا۔

پہلی بات : مکڑی کا جالا تننا:

یہ بات مختلف حضرات نے اپنی سندوں کے ساتھ نقل کی ہے، مثلاً: امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :

  "وأمر الله العنکبوت فنسجت في وجه النبي صلی الله علیه وسلم فسترته". (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴، ط:دارالحدیث القاهرة)

امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ سند اگرچہ کم زور ہے، لیکن مختلف حضرات نے چوں کہ اسے ذکر کیا ہے اور مسئلہ کا تعلق احکام سے بھی نہیں ہے، لہذا یہ روایت قابلِ قبول ہوگی۔

دوسری بات: کبوتر کا انڈے دینا :

یہ بات ہمیں تاحال نہ مل سکی ، البتہ یہ بات ملی ہے کہ دو کبوتر آکر غار کے دہانے کھڑے ہوگئے اور آپ علیہ السلام کو چھپا لیا، امام بیہقی رحمہ اللہ کی روایت ہے:

"وأمر الله حمامتین وحشیتین فوقفتا بفم الغار". (دلائل النبوة: ۲/۳۵۴)

تیسری بات: کبوتر کا گھونسلہ بنانا:

اس بات کو بھی کئی حضرات نے نقل کیا ہے، امام مقریزی رحمہ اللہ نے فرمایا :

"وعششت حمامتان علی باب الغار". (إمتاع الأسماع :۱/۴۰مطبعة لجنة التالیف والترجمة)

دو کبوتروں نے غار کے آگے گھونسلہ بنایا ۔

چوتھی بات :سانپ کا ڈسنا :

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سانپ کے ڈسنے کا واقعہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ان الفاظ سے نقل کیا ہے:

"وکان في الغار خرق  فیه حیات وأفاعي، فخشي أبوبکر أن یخرج منهنّ شيءٌ یؤذي رسول الله صلی الله علیه وسلم، فألقمه قدمه فجعلن یضربنه ویلسعنه الحیات والأفاعي، وجعلت دموعه تنحدر و رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول له: یا أبابکر لاتحزن إن الله معنا". (دلائل النبوة:۲/۳۵۱)

اس کے علاوہ سائل نے یہ بات پوچھی ہےکہ :"یہ انڈے دینے کا واقعہ اچانک ہوگیا تھا یا پہلے سے گھونسلہ بنا رکھا"؟ اس کے بارے میں عرض ہے کہ اس طرح کی مدد ونصرت کا ہونا ظاہر ہے ایک غیبی معاملہ ہے اور اس میں ظاہری اسباب کو نہیں دیکھا جاتا ہے، انڈے دینے والا واقعہ تو ہمیں نہیں مل سکا ہے، لیکن مکڑی کا جالا تننا اور کبوتر کا گھونسلہ بنانا اور پھر غار کے دہانے ایسی جگہ کھڑا ہونا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہ آئیں یہ سارے واقعات  کا تعلق بھی عام معاملات سے نہیں ہے، اسی لیے جن روایات میں ان کا تذکرہ ہے اس میں اس بات کے ساتھ "أمر الله" کے الفاظ بھی ہیں کہ اللہ کے حکم سے ایسا ہوا، یہ عام اتفاقات نہیں تھے، اگر انڈہ دینے  کا واقعہ درست بھی ہو تو ممکن ہے کہ وہ بھی اللہ کے حکم سے ہو اور اسی وقت یہ معاملہ ہوجائے اس کا عقل میں آنا ضروری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کامل قدرت والے ہیں، جب باقی کام خلافِ عادت کرسکتے ہیں تو انڈے دینے والا واقعہ خلاف عادت کیوں نہیں ہوسکتا ہے!

البتہ اس بات کی دوبارہ صراحت ضروری ہے کہ ہمیں یہ واقعہ (کبوتر کا انڈے دینا) کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکا ہے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں