بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی اَحکام کی رو سے عید کتنے دن ہے؟


سوال

اسلامی اَحکام کے مطابق عید کتنے دنوں کی ہوتی ہے؟

جواب

اسلام میں دو عیدیں ہیں، ایک ’’عید الفطر‘‘  جو کہ شوال کی پہلی تاریخ کو ہوتی ہے۔ اور دوسری ’’عید الاضحی‘‘  جو کہ 10، 11 اور 12 ذوالحجہ کے دنوں میں ہوتی ہے۔  البتہ عید الاضحی کے بعض اَحکام مثلاً  تکبیراتِ تشریق کا پڑھنا وغیرہ چوں کہ 13 ذوالحجہ تک ہوتے ہیں، اس وجہ سے ایامِ تشریق اور یومِ عرفہ کو بھی عید کے دنوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ابن رجب حنبلیؓ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:

’’حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’تم کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.

اصل بات یہ ہے کہ شریعت نے جس دن کو عید کا دن بنانے کا حکم دیا ہے، اس دن کے علاوہ کسی اور دن کو عید بنانا شریعت میں جائز نہیں ہے، چنانچہ ان دنوں میں یوم الفطر، یوم الاضحی، اور ایام تشریق ہیں، یہ سالانہ عیدین ہیں جب کہ جمعہ کا دن، ہفتہ وار عید کا دن ہے، ان کے علاوہ باقی کسی دن ’’عید‘‘  یا کوئی جشن کا موسم بنانا بدعت ہے، اس کی شریعت میں کوئی اصل اور بنیاد نہیں‘‘۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4 / 291):
’’ عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتتخذوا شهرًا عيدًا، ولا تتخذوا يومًا عيدًا»‘‘.

لطائف المعارف لابن رجب (1 / 118):
’’وأصل هذا: أنه لايشرع أن يتخذ المسلمون عيدًا إلا ما جاءت الشريعة باتخاذه عيدًا وهو ’’يوم الفطر‘‘ و ’’يوم الأضحى‘‘، وأيام التشريق وهي أعياد العام، ويوم الجمعة وهو عيد الأسبوع، وما عدا ذلك فاتخاذه عيدًا وموسمًا بدعة لا أصل له في الشريعة‘‘.

سنن أبي داود (2 / 320):
’’قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يوم عرفة، ويوم النحر، وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب»‘‘.

شرح النووي على مسلم (6 / 184):

’’وهي أيام التشريق ففيه أن هذه الأيام داخلة في أيام العيد، وحكمه جار عليه في كثير من الأحكام؛ لجواز التضحية وتحريم الصوم واستحباب التكبير وغير ذلك‘‘.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3 / 1066):

’’ وذهب جماعة إلى أن وقتها إلى يومين من أيام التشريق أي: وهو آخر أيام النحر، وإليه ذهب أصحاب أبي حنيفة ذكره الطيبي. قال ابن حجر: ومن هذه الأحاديث أخذ أصحابنا أن وقت الأضحية إذا مضى عقب طلوع الشمس بناء على دخول وقت العيد به، وهو المعتمد عندنا‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں