بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ایک خط کی تحقیق


سوال

مجھے اس تحریر اور خط کے بارے میں جاننا ہے کہ یہ واقعہ ، خط درست ہے یا نہیں ؟

تحریر یہ ہے:(اس خط کی تصویر بھی ہے جو یہاں لگ نہیں رہی) :

عہد نامہ محمد رسول اللہ ﷺ بنام سینٹ کیتھرائن

آپ اگر قاہرہ سے اردن کی طرف سفر کریں تو آپ کو بحیرہ احمر کے پار ایک وسیع صحرا ملے گا،  صحرا کی ایک سائیڈ پر بحیرہ روم،  دوسری پر نہر سویز،  تیسری طرف بحیرہ احمر اور چوتھی سائیڈ پر اسرائیل ہے، یہ صحرا سینا یا سنائی کہلاتا ہے،  سینا کے جنوبی حصے میں طور نام کی ایک پہاڑی ہے،  یہ پہاڑی ساڑھے سات ہزار فٹ بلند ہے،  پندرہ سو قبل مسیح میں حضرت موسیٰ ؑ اپنی اہلیہ حضرت صفورا کے ساتھ کوہ طور کے قریب سے گزرے تھے،  سردی تھی،  آپؑ کو پہاڑ پر آگ نظر آئی،  آپؑ نے اپنی اہلیہ کو رکنے کا حکم دیا اور آگ کی تلاش میں پہاڑ پر چڑھ گئے،  حضرت موسیٰ ؑ کو طور پر ایک جلتی ہوئی جھاڑی دکھائی دی،  جھاڑی کے قریب پہنچے،  آپؑ کو اللہ تعالیٰ کا جلوہ نظر آ یا اورآپؑ کو نبوت مل گئی،  یہودیوں نے اس واقعے کے ہزار سال بعد جھاڑی کے گرد ایک عبادت گاہ بنا دی،  حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لائے،  یہ علاقہ عیسائی بادشاہوں کے قبضے میں آیا،  رومن عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365ء میں یہاں ایک چھوٹا سا چرچ (چیپل) بنا دیا،  چیپل کی تعمیر کے دو سو سال بعد  565ء  میں رومن بادشاہ سیزر جسٹینین نے یہاں ایک بڑی خانقاہ تعمیر کر دی،  یہ خانقاہ سینٹ کیتھرائن کہلاتی ہے،  یہ آج تک سلامت ہے،  حضرت موسیٰ ؑکی جلتی ہوئی جھاڑی اسی خانقاہ میں موجود ہے۔

سینٹ کیتھرائن کی لائبریری دنیا کی دوسری قدیم ترین لائبریری ہے،  لائبریری میں دنیا کی قدیم دستاویز موجود ہے،  ان دستاویز میں نبی اکرمؐ کا ایک خط مبارک بھی شامل ہے،  خط پر آپؐ کے دست مبارک کا نشان ہے،  عیسائی اس خط کو نبی  اکرمؐ کاکووننٹ ٹسیٹامنٹ جب کہ مسلمان عہد نامہ کہتے ہیں، یہ دنیا میں واحد ایسی دستاویز ہے جس پر  رسول اللہ ﷺ  کے دستِ  مبارک کا نشان موجود ہے۔ مصر تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خلفاء کے قبضے میں رہا،  یہ چرچ بھی ان اَدوار میں مسلمانوں کے زیر نگین رہا،  لیکن خلفاءِ  راشدین ہوں،  بنو امیہ کا دور ہو،  عباسیوں اور فاطمیوں کا عہد ہو،  سلطان صلاح الدین ایوبی کا زمانہ ہو یا پھر عثمانی خلافت ہو،  اسلامی ریاست کے ہر دور میں یہ چرچ بھی محفوظ رہا اور یہ عہد نامہ بھی،  مسلمان حکمران بدلتے رہے،  لیکن ہر حکمران نے اس عہد نامے کا احترام بھی کیا اور اس کی تصدیق بھی۔  یہ معاہدہ ”تاریخ سینا القدیم“  جیسی معتبر کتاب میں بھی موجو دہے،  عثمانی خلیفہ سلیم اول نے 1516ء میں مصر فتح کیا،  سلیم اول نے فتح کے بعد نہ صرف اس عہدنامے کی تصدیق کی، بلکہ عثمانیوں کے گورنر (پاشا آف مصر) ہر سال عہد نامے کی تصدیق اور معائنے  کے لیے سینٹ کیتھرائن بھی جاتے تھے،  یہ تصدیق نامے بھی آج تک چرچ کی لائبریری میں موجود ہیں۔

یہ عہد نامہ کیا ہے اور یہ کیوں کیا گیا؟ اس کے بارے میں مختلف روایات ہیں،  ایک روایت کے مطابق خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے،  نبی اکرمؐ نے ان کی میزبانی فرمائی،  متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا، ہمیں خطرہ ہے،  مسلمان جب طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے،  آپؐ نے جواب دیا:   آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے،  متولیوں نے عرض کیا:  ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں،  آپ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں؛ تاکہ ہم مستقبل میں آپ کے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں،  آپؐ نے تحریر لکھوائی،  تصدیق  کے لیے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا،  وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا،  مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے،  فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا،  خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے،  وہ عہد نامہ کیا تھا،  میں اس کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔

”یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے جنہیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمائندہ بنا کر بھیجا گیا تا کہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو،  بے شک اللہ قادر مطلق اور دانا ہے،  یہ خط اسلام میں داخل ہونے والوں  کے لیے ہے،  یہ معاہدہ ہمارے اور دور و نزدیک،  عربی اور عجمی،  شناسا اور اجنبی،  عیسائیوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکاروں کے درمیان ہے،  یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا،  وہ کفر کرے گا،  وہ اس حکم سے روگردانی کا راستہ اختیار کرے گا،  معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خدا اور اس کے حکم کا نافرمان ہو گا،  اس (خط) حکم کی نافرمانی کرنے والا بادشاہ یا عام آدمی خدا کے قہر کا حق دار ہوگا، جب کبھی عیسائی عبادت گزار اور راہب ایک جگہ جمع ہوں،  چاہے وہ کوئی پہاڑ ہو یا وادی،  غار ہو یا کھلا میدان،  کلیساء ہو یا گھر میں تعمیر شدہ عبادت گاہ ہو تو بے شک ہم (مسلمان) ان کی حفاظت  کے لیے ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے،  میں، میرے دوست اور میرے پیروکار ان لوگوں کی جائیدادوں اور ان کی رسوم کی حفاظت کریں گے،  یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں،  ان پر ہر طرح کا جزیہ ساقط ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں،  انہیں کسی طرح مجبور،  خوفزدہ،  پریشان یا دباؤ میں نہیں لایا جائے گا،  ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں،  ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں، کسی کو حق نہیں یہ ان کو لوٹے،  ان کی عبادت گاہوں اور کلیساؤں کو تباہ کرے اور ان (عمارتوں) میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے،  جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا،  ان کے قاضی،  راہب اور عبادت گاہوں کے رکھوالوں پر بھی جزیہ نہیں ہے،  ان سے کسی قسم کا جرمانہ یا ناجائز ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا،  بے شک میں ان سے وعدے کی پاسداری کروں گا،  چاہے یہ زمین میں ہیں یا سمندر میں،  مشرق میں ہیں یا مغرب میں،  شمال میں ہیں یا جنوب میں،  یہ میری حفاظت میں ہیں،  ہم اپنے مذہبی خدا کی عبادت میں زندگی وقف کرنے والوں (راہبوں) اور اپنی مقدس زمینوں کو زرخیز کرنے والوں (چرچ کے زیر انتظام زمینوں) سے کوئی ٹیکس یا آمدن کا دسواں حصہ نہیں لیں گے، کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کے معاملات میں دخل دے یا ان کے خلاف کوئی اقدام کرے،  ان کے زمیندار،  تاجر اور امیر لوگوں سے لیا جانے والا ٹیکس 12 درہم(دراچما) سے (موجودہ 200 امریکی ڈالر) سے زائد نہیں ہو گا،  ان کو کسی طرح کے سفر (نقل مکانی) یا جنگ میں حصہ لینے (فوجی بھرتی) پر بھی مجبور نہیں کیا جائے گا،  کوئی ان سے جھگڑا یا بحث نہ کرے،  ان سے قرآن کے احکام کے سوا کوئی بات نہ کرو ”اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو“ (سورۃ العنکبوت آیت 46)،  پس یہ مسلمانوں کی جانب سے ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ ہیں،  چاہے یہ عبادت گاہ میں ہیں یا کہیں اور، کسی عیسائی عورت کی مسلمان سے اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو سکتی،  اس کو اس کے کلیساء جانے سے نہیں روکا جا سکتا،  ان کے کلیساؤں کا احترام ہو گا،  ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاسداری کرے۔“

عہد نامے کے نیچے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ  مبارک کا نقش ہے، یہ نقش رسول اللہ ﷺ کے دستخط کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ الخ

جواب

اس عہدنامہ کی نسبت آپ ﷺ کی طرف درست معلوم نہیں ہوتی:

1۔۔  اس خط کا اسلوب اور اس کی زبان عہد نبوی میں بولی جانے والی لغت  کی تراکیب سےقدرے مختلف ہے۔

2۔۔ اس عہد نامہ کے ساتھ ایک عہدنامہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب بھی ملتا ہے، جو  اپنے اسلوب میں بالکل پہلے کی طرح ہی ہے، اس لیے  مجلۃ الاسلام (عدد:45، جلد 2) میں استاد حسن بن قاسم نے اس پر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ محققین نے بھی اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کرنے کا انکار کیا ہے، ان محققین میں احمد ذکی پاشا بھی شامل ہیں ۔

3۔۔ اس عہد نامہ میں بعض مجہول نام ذکر ہیں ، مثلا ​​​​​​ غاز بن ياسينى - معظم بن قرشى - عبد العظيم ابن حسن -ثابت بن نفيس حالاں کہ صحابہ کرام کے نام مشہور و معروف ہیں، ان میں ان صحابہ کا نام ذکر نہیں ملتا۔

4۔۔ اسلامی مؤرخین جنہوں نے عہد نبوی کی ایک ایک  چیز تاریخ میں ذکر کی انہوں نے بھی اس عہدنامہ کا کہیں ذکر نہیں کیا ۔

5۔۔ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ نے بھی "المغنی" میں اس پر رد کیا ہے  کہ نصاری اس سے اپنے اوپر جزیہ کا انکار کرتے ہیں، حالاں کہ یہ خط معتمد روایت سے ثابت نہیں ہے۔

(7702) فصل: و ما يذكر بعض أهل الذمة من أن الجزية لاتلزمهم، و أن معهم كتابا من النبي صلى الله عليه وسلم بإسقاطها عنهم، لايصح. و سئل عن ذلك أبو العباس بن سريج، فقال: ما نقل ذلك أحد من المسلمين. وذكر أنهم طولبوا بذلك، فأخرجوا كتابًا ذكروا أنه بخط علي، - رضي الله عنه - كتبه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان فيه شهادة سعد بن معاذ، ومعاوية، وتاريخه بعد موت سعد وقبل إسلام معاوية، فاستدل بذلك على بطلانه. و لأن قولهم غير مقبول، ولم يرو ذلك من يعتمد على روايته.

6۔۔ اس عہدنامہ کی تصویر پر ایک ہاتھ کا عکس ہے، جسے وہ آپ کے دستخط سے تعبیر کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ کا عکس اس پر ثبت فرمایا، حالاں کہ آپ جو خط بھیجتے تھے اس پر مہر کے طور پر  انگوٹھی سے مہر لگاتے تھے، جس پر "محمد رسول اللہ " لکھا ہوا تھا، کسی کتب احادیث، تاریخ وغیرہ میں اس طرح ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے دستخط کے طور پر اپنے ہاتھ کا  مکمل عکس اس پر لگایا ہو۔

لہذ ا اس خط / عہدنامہ کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں