میری نظر کے سامنے دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے جس میں انھوں نے مستورات کی جماعت کو ناجائز کہا ہے، میرے دماغ میں اس دن سے یہ سوال چل رہا ہے کہ اگر خیر القرون میں عورتیں سفر نہیں کرتی تھیں اور جماعتوں میں نہیں جاتی تھیں، تو خیر القرون میں تو عورتوں کے مدارس بھی نہیں تھے، تصوف والے حضرات عورتوں کو جمع کرتے ہیں دینی محافل میں، تو یہ دین کے شعبے بھی ناجائز ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کے فتوے کالنک یہ ہے: http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Dawah--Tableeg/59863 اب یا تو اس فتوے کو رد کریں،یا پھر ثابت کریں کہ مستورات کی جماعتیں ناجائز اور بنات کے مدارس جائز ہیں، اور دونو ں پر دلیل بھی دیں۔
عورتوں کو تبلیغی جماعت میں بھیجنے کے سلسلے میں علمائے عصر کے دونظریے اور دو رائے ہیں، بعض علماء و اکابر نے تبلیغی اہمیت اور احساس کے باوجود مفاسد کے غالب ہونے کے پہلوکو مد نظر رکھ کر اجازت نہیں دی، اور بعض دوسرے علمائے کرام نے عصرحاضر کے لوگوں میں دین سے غفلت، اسلامی تہذیب سے بعد و دوری، علوم اسلامیہ کی تحصیل و ترویج سے سستی و بیزاری وغیرہ دیگر حقائق نیز تبلیغی جماعت کے فوائدِ کثیرہ, من جملہ ان کے لوگوں میں اس کے ذریعہ علوم دینیہ کی تحصیل کا شوق و جذبہ، سنت نبوی علیہ الصلاة و السلام سے لگاؤ، شریعت ِ اسلامی و تہذیب محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت کا شوق و عزم وغیرہ پہلوؤں کے پیشِ نظر رکھ کر چند اہم و ضروری شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ۔دارالعلوم دیوبند اور ہماری جامعہ کی رائے احتیاط اور عورتوں کی عصمت وتحفظ کے پیش نظر عدم جواز کی ہے، جس کی تفصیل دارالعلوم دیوبند کے محولہ بالافتوی میں موجود ہے۔ اجتہادی مسائل میں علماء امت کا یہ اختلاف نیا نہیں، دسیوں مسائل میں علماء میں اس نوعیت کا اختلاف رائے موجود ہے۔اس لیئے سائل کو جن علماء کی رائے پر زیادہ اعتماد ہو ان کی رائے پر عمل کرسکتا ہے، کسی ایک جانب شدت اختیار کرنا مناسب نہیں ۔ یہی صورتحال اہل تصوف کے اجتماعات میں عورتوں کی شرکت کی بھی ہے، بعض احتیاطا ناجائز اور بعض شرائط کے ساتھ اجازت دیتے ہیں۔
اب رہی سائل کی یہ بات کہ جب خیر القرون میں مستورات کی جماعت کا ثبوت نہیں تو بنات کے مدارس کا ثبوت بھی تو نہیں، وہ کیوںکر جائز ٹھہرے؟ یاد رہے اس سے متعلق بھی علماء کرام کی دو رائے ہیں، بعض منع کے قائل ہیں ، اور خواتین کی تعلیم وتربیت اور دینی ضروریات کو ان کی دیگر ضروریات کی طرح ان کے محارم کے ذمہ قراردیتے ہیں، جیسے کے بعض روایات میں اس کی تصریح ملتی ہے، جب کہ دیگر علماء مردوں کی طرف سے اس ضرورت کو پورا نہ کرنے یا کما حقہ نہ نباہنے کی وجہ سے اجازت دیتے ہیں۔اور قرون اولی میں اس کا ثبوت نہ ہونے کا جواب مفتی اعظم ہند، مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ نے کفایت المفتی میں دیا ہے، اسی کے نقل پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ حضرت مفتی صاحب رقم طراز ہیں:
زنانہ مدارس کی تشکیل اگر قرون اولی میں نہیں تھی تو کوئی حرج نہیں؛ کیوں کہ لڑکوں کے اسکول اور مدرسے بھی ماضی میں نہ تھے، پھر بھی امت محمدیہ کے تمام علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور مردانہ مدارس میں پڑھتے پڑھاتے چلے آرہے ہیں۔ فرائض اسلامیہ اور واجبات شرعیہ خواہ عبادات سے ہوں خواہ معاملات میں سے ان کی تعلیم فرض ہے، اور علوم مستحبہ مثلا صلحاء وعلماء کے تذکرے اور عبرت آموز تاریخی روایات اور اخلاقیات وگیرہ کی تعلیم مستحب ہے اور فنون کی تعلیم مباح ہے۔ (ج:۲،ص: ۳۵)
بنات کے مدارس کے بارے میں ہماری رائے یہی ہے کہ اپنے شہر/ علاقے کی ہی کسی مستند و محفوظ تعلیم گاہ میں ستر ، پردے اور دیگر شرعی احکام کی مکمل پابندی کے ساتھ ضروری دینی تعلیم حاصل کی جائے۔
امید ہے اس تفصیل سے سائل کا ذہن صاف ہوگیا ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں راہ حق کی رہنمائی عطا فرمائیں ۔ آمین ، فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143708200046
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن