بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا مفتیہ ہونا


سوال

دیکھنے میں آرہا ہے آج کل  کہ عورتیں بھی باقاعدہ فتوی دینا شروع ہوگئی ہیں۔ مرد حضرات جیسے اپنے نام کے ساتھ مفتی لگاتے ہیں دورِ حاضر میں "مفتیہ" بھی آرہی ہیں۔ عورتوں کی قابلیت سے چنداں انکار نہیں خود اس دینِ فطرت کی بہت عظیم فقیھہ و مفتیہ ،قوی و مستند علم والی پاکیزہ ہستی امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گزری ہیں، اس سے انکار نہیں، لیکن دور حاضر میں جب کہ ظاہری نصاب بھی خواتین/عالمات کا بہت مختصر ہے اور مفتی حضرات کی کثیر تعداد فعال ہے، نیز سوشل میڈیا کی سہولت سے فاصلے کم ہوچکے ہیں تقریباً ہر شخص ہی مستند مفتی حضرات سے رابطہ کرسکتا ہے، ایسے میں خواتین کا اس میدان میں آنا اور باقاعدہ مفتیہ کے کورس کر کے فتاوے لکھنا صحیح ہے؟ اسلاف میں اس کی ترغیب یا کم از کم اجازت ملتی ہو تو براہِ کرم حوالہ بھی عنایت فرمائیے۔ نیز موجودہ صورتِ حال میں ان خواتین کا اس میدان میں اترنا کس حد تک مفید یا نقصان دہ ہوسکتا ہے اس کی بھی راہ نمائی فرمائیے؟

جواب

فتوی دینا اور کسی شرعی مسئلہ کا حل بتانا ایک اہم شرعی اور دینی ذمہ داری ہے، ہر ایک کے لیے اس ذمہ داری کو ادا کرنا آسان نہیں۔نیز ایک یا دو سال فقہ کی کتب کا پڑھ لینا مفتی ہوجانے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے محنت اور تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام شاطبی لکھتے ہیں۔

"وعلی الجملة فالمفتي مخبرعن الله تعالیٰ کالنبي ونافذ أمره في الأمة بمنشورالخلافة کالنبي".
ترجمہ: الحاصل مفتی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی خبر دیتاہے اوراس کے ارشادات کو لوگوں پر نافذ وجاری کرتاہے ۔ (الموافقات :ج ،٤،ص ،٢٤٤تا٢٤٥)
خواتین کی دینی تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انہیں بنیادی دینی معلومات اور ضروری مسائل کا علم ہوجائے، ان کی زیادہ ذمہ داری امورِ خانہ داری کا اہتمام ہے، اسی لیے اکابرِ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے وفاق کے اولین نصاب میں اس بات کی پوری وضاحت کی ہے کہ بنات کے لیے ضروری اور بنیادی تعلیم اور امورِ خانہ داری کی تربیت پر مشتمل مختصر نصابِ تعلیم وضع کیا جائے۔ علوم کے اندر انہماک و اشتغال اور تحقیق وتدقیق مردوں کی ذمہ داری ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواجِ مطہرات اولاً تو امت کی مائیں ہیں، ان سے علمی استفادہ اور عام خاتون سے اجنبی مردوں کے استفادے میں بعد المشرقین ہے، نیز امہات المؤمنین کے ذریعے زیادہ تر حضور ﷺ کی خانگی زندگی سے متعلق مسائل و احوال امت تک پہنچے ہیں، یقیناً دین کا یہ حصہ امت کے مرد حضرات نہیں پہنچا سکتے تھے، اس کے علاوہ سابقہ زمانے میں اگر چند مثالیں موجود بھی ہیں تو وہ شاذ ونادر ہیں، اور ان صواحبِ علم خواتین کی زندگیاں غیر معمولی تقویٰ کی آئینہ دار ہیں۔

لہذا عورتوں کو  لوگوں کو شرعی  مسائل بتانے میں احتیاط  برتنی چاہیے، اہم مسائل کے لیے لوگوں کو مستند مفتیان سے رجوع کرنے کا مشورہ دیاجائے، البتہ خواتین کے خصوصی مسائل کے لیے دیگر خواتین ان سے رجوع کرسکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے سوشل میڈیا کا ایسا استعمال جس میں غیروں سے اختلاط یا کوئی اور شرعی خرابی لازم آتی ہو درست نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں