بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا عید کی نماز پڑھنےکا حکم


سوال

کیا عورتیں عید کی نماز پڑھ سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے ازروئے شرع خواتین پر عید کی نماز واجب نہیں ہے، ان کے لیے جب فرض نمازیں اپنی رہائش گاہ میں ادا کرنے کا حکم ہے تو  عیدین کی نماز  جو اُن پر واجب  ہی نہیں،اس  کے لیے عمومی اَحوال میں  خواتین کا گھر سے باہر جانا بھی مکروہِ تحریمی ہوگا،  تاہم اگر خواتین حرم یا مسجدِ نبوی میں موجود ہوں تو  مخصوص احاطے میں عید کی نماز  ادا کرسکتی ہیں۔

حدیث شریف میں ہےکہ حضرت ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا محبوب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز ادا کرنا محبوب ہے، لیکن تمہارا گھر کی کوٹھڑی میں نماز ادا کرنا گھر (کے صحن) میں نماز ادا کرنے سے بہترہے، اور گھر میں نماز ادا کرنا محلے کی مسجد میں نماز اد اکرنے سے بہترہے، اور محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز ادا کرنے سے بہترہے، چناں چہ ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا کے لیے گھر کی اندرونی کوٹھڑی میں نماز کی جگہ بنائی گئی  جہاں وہ نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل سے جاملیں۔

بصورتِ  مسئولہ عورتوں پر عید کی نماز واجب نہیں ہے؛  لہذا عید  کی نماز  کے لیے عید گاہ جانا مکروہِ  تحریمی ہے۔

 البنایہ میں ہے:

"و يكره لهن حضور الجماعات يعني الشواب منهن؛ لما فيه من خوف الفتنة، و لا بأس للعجوز أن تخرج في الفجر و المغرب و العشاء." (الهدایة)

"قال العیني:(قال: ويكره لهن حضور الجماعات) ش: أي يكره للنساء (يعني الشواب منهن) … وهذه اللفظة بإطلاقها تتناول الجُمَع و الأعياد والكسوف والاستسقاء. و عن الشافعي: يباح لهن الخروج، (لما فيه) أي في حضورهن الجماعة (من خوف الفتنة) عليهن من الفساق، وخروجهن سبب للحرام، وما يفضي إلى الحرام فحرام. وذكر في كتاب الصلوات مكان الكراهة الإساءة والكراهة فحش. قلت: المراد من الكراهة التحريم ولا سيما في هذا الزمان؛ لفساد أهله."

(البناية شرح الهداية، بدر الدين العيني (م:۸۵۵هـ):۲؍۳۵۴، کتاب الصلاة، باب في الإمامة، حضور النساء للجماعات، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و يكره حضورهن الجماعة و لو لجمعة و عيد و وعظ مطلقاً، و لو عجوزاً ليلاً علی المفتی به؛ لفساد الزمان."

( كتاب الصلاة، باب الامامة، ج:1، ص:566، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں