بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی تدفین میں غیر مسلم محارم کی شرکت


سوال

ایک عورت جو عیسائی تھی ، اس نے دس سال پہلے اسلام قبول کیا اور ایک مسلمان سے شادی کر لی ، اس کی اولاد نہیں ہے ، دو بھائی اور دو بہنیں جو کہ عیسائی مذہب سے ہی تعلق رکھتے ہیں وہ ہیں ، سوال یہ ہے کہ ایسی عورت کو طلاق ہوجانے کے بعد موت کے وقت اس کے کفن دفن اور قبر میں اتارنے کے لیے کیا اس کے بھائی جو کہ عیسائی ہیں وہ مدد کر سکتے ہیں؟ یا مسلمان نامحرم مرد ہی اس کی میت کو قبر میں اتاریں گے ؟

جواب

ایسی عورت جس  کے محارم میں کوئی مسلمان موجود نہ ہوتو عام مسلمانوں پر اس کی تجہیز وتکفین کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،لہذا ایسی عورت کے غسل  اور تکفین کی خدمت  مسلمان عورتوں کے سپرد کی جائے گی ،اورقبر میں اتارنے کے لیے جب کوئی مسلمان محرم موجود نہ ہو اور (اسے طلاق ہوچکی ہو) تو مسلمان نیک صالح لوگ عورت کی تدفین میں تعاون کریں،غیرمسلم کے لیے مسلمان کی تدفین کرنامکروہ ہے۔''بدائع الصنائع'' میں ہے:

''وذو الرحم المحرم أولى بإدخال المرأة القبر من غيره ؛ لأنه يجوز له مسها حالة الحياة فكذا بعد الموت ، وكذا ذو الرحم المحرم منها أولى من الأجنبي ولو لم يكن فيهم ذو رحم فلا بأس للأجانب وضعها في قبرها ، ولا يحتاج إلى إتيان النساء للوضع''۔(3/339)

''البحرالرائق'' میں ہے:

''لأن المسلم إذا مات ، وله قريب كافر فإن الكافر لا يتولى تجهيزه ، وإنما يفعله المسلمون، ويكره أن يدخل الكافر في قبر قرابته المسلم ليدفنه''۔(5/361)

''المحیط البرہانی'' میں ہے:

''ويكره أن يدخل الكافر في قبر قرابته من المسلمين ليدفنه ؛ لأن الموضع الذي فيه الكافر تنزل فيه اللعن والسخط، والمسلم يحتاج إلى نزول الرحمة في كل ساعة، فينزه قبره من ذلك''۔(2/353)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں