اگر کوئی عورت مہینہ میں صرف ایک دن خون دیکھتی ہے ایام حیض میں، اس عورت کے لیے نماز ، روزے کا کیا حکم ہوگا ، یہ خون حیض کا شمار ہوگا یا استحاضہ کا؟ جب کہ پہلے عورت کے ایام کی عادت پانچ دن تھی اور اب چار مہینوں سے اس کو صرف ایک دن خون آتا ہے۔
حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے، اس سے کم حیض نہیں ہوتا، لیکن اس پوری مدت میں لگاتار خون کا نظر آنا ضروری نہیں, بلکہ مثلاً: پہلے دو دن خون آیا اور پھر چار دن بعد خون آیا تو تمام چھ دن ہی حیض کے ہوں گے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر چار مہینہ سے صرف ایک دن خون آرہا ہے، اور پھر دس دن کے مکمل ہونے تک دوبارہ خون نہیں آتا تو اس صورت میں وہ ایک دن کا خون استحاضہ ہی کے حکم میں ہے، اور استحاضہ کا حکم یہ ہے کہ ان دنوں میں نماز، روزہ ، تلاوتِ کلامِ مجید و دیگر تمام عبادات کر یں گی۔ اور ایسی خواتین جنہیں دمِ استحاضہ آتا ہو وہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کریں گی اور اس وقت کے ختم ہونے تک اسی وضو سے نماز، تلاوت، طواف وغیرہ کر سکتی ہیں بشرطیکہ کوئی اور وضو توڑنے کا سبب پیش نہ آئے، اور نماز کا وقت ختم ہوتے ہی ان کا وضو بھی ختم ہو جائے گا، اور نماز وغیرہ کے لیے دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
’’(وَدَمُ اسْتِحَاضَةٍ) حُكْمُهُ (كَرُعَافٍ دَائِمٍ) وَقْتًا كَامِلًا (لَا يَمْنَعُ صَوْمًا وَصَلَاةً) وَلَوْ نَفْلًا (وَجِمَاعًا)؛ لِحَدِيثِ: «تَوَضَّئِي وَصَلِّي وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ»‘‘.
و في الشامية: ’’(قَوْلُهُ: لَا يَمْنَعُ صَوْمًا إلَخْ) أَيْ وَلَا قِرَاءَةً وَمَسَّ مُصْحَفٍ وَدُخُولَ مَسْجِدٍ، وَكَذَا لَا تُمْنَعُ عَنْ الطَّوَافِ إذَا أَمِنَتْ مِنْ اللَّوْثِ، قُهُسْتَانِيٌّ عَنْ الْخِزَانَةِ ط‘‘. (١/ ٢٩٨)
وفیه أیضاً: ’’وَكَطَهَارَةِ الْمُسْتَحَاضَةِ وَالْمُتَيَمِّمِ تُنْتَقَضُ عِنْدَ خُرُوجِ الْوَقْتِ‘‘. (٢/ ٣٦٩)
’’ أقل الحیض ثلا ثة أیام ولیالیها ومانقص من ذٰلک فهو استحاضة‘‘. (الهداية ۱؍۶۲)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 285):
’’(والناقص) عن أقله(والزائد) على أكثره أو أكثر النفاس أو على العادة وجاوز أكثرهما. (وما تراه) صغيرة دون تسع على المعتمد وآيسة على ظاهر المذهب (حامل) ولو قبل خروج أكثر الولد (استحاضة)‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200192
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن