بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا تینوں طلاقیں دینے کا دعوی کرنا اور شوہر کا انکار کرنا


سوال

میرا بہنوئی منشیات کا عادی ہے،بہت بارجیل جا چکا ہے، میری بہن سے شادی کیے اس کو 20 سال ہو گئے ہیں، ان کا دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں ہے، میری بہن کے بقول اس نے بھری عدالت میں جج کے سامنے تین بار  طلاق دینے کی غرض سے طلاق  بول دیا۔ اب وہ چار سال بعد رہا ہو کر گھر آیا ہے اور مکر رہا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی،  جب کہ میری بہن کے پاس  کوئی گواہ نہیں  ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فریقین کسی معتبر عالم یا مفتی یا علاقائی  دِین دار پنچائیت کو ثالث مقرر کریں، پھر وہ  سائل کی بہن  سے اس کے  دعوی پر شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتیں ) پیش کرنے کا مطالبہ کریں گے، اگر وہ شرعی گواہ پیش کر دے تو ثالث تینوں طلاقوں کے واقع ہونے کا فیصلہ کر دیں گے، لیکن اگر عورت اپنے دعوی پر شرعی گواہ پیش نہ کر سکی تو وہ خاوند سے قسم اٹھوائیں گے اگر خاوند قسم اٹھا لے گا تو ثالث کسی طلاق کے واقع نہ ہونے کا فیصلہ کر دیں گے۔ اور جب تک کسی ثالث سے فیصلہ نہ کرا لی٘ں تب تک دونوں ایک دوسرے سے جدا رہیں۔

الفتاوى الهندية (3/ 210):

"فالبينة على المدعي واليمين على المنكر، كذا في التهذيب".

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 35):

"قال عليه الصلاة والسلام: «البينة على المدعي واليمين على من أنكر»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 428430-):

"(هو) لغة: جعل الحكم فيما لك لغيرك. وعرفاً: (تولية الخصمين حاكماً يحكم بينهما۔... (صح لو في غير حد وقود ودية على عاقلة ... ثم استثناء الثلاثة يفيد صحة التحكيم في كل المجتهدات كحكمه بكون الكنايات رواجع وفسخ اليمين المضافة إلى الملك وغير ذلك".

في الشامية: "(قوله في كل المجتهدات) أي المسائل التي يسوغ فيها الاجتهاد من حقوق العباد كالطلاق والعتاق والكتابة ..." الخ

الفتاوى الهندية (3/ 397):

"تفسيره تصيير غيره حاكماً فيكون الحكم فيما بين الخصمين".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں