بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عوامی راستوں میں کرکٹ کھیلنا


سوال

 اگر ہم شام کے  فارغ  اوقات  میں  درج ذیل امور ہوتے ہوئے کرکٹ کھلیں تو کیا حکم ہوگا؟

1-  عام محلے میں ہو، جہاں ارد گرد گھروں سمیت لوگوں اور گاڑیوں کا گزر بھی ہو، اور کبھی گاڑی پر گیند لگ جائے.

2-  ہماری گیند کسی کے گھر چلی جائے، پھر ہم دروازہ کھٹکھٹائیں اور گیند طلب کریں، قطع نظر اس کے کہ سامنے والا گھر میں آرام کر رہا ہے یا فارغ بیٹھا ہے، باعثِ تکلیف تو ہوتا ہوگا.

3-  سڑک پر عام لوگوں کا گزر ہوتا ہو، چاہے ضعیف العمر ہوں یا جوان لوگ، اور کبھی خواتین بھی، ان کو ہماری گیند لگ جائے.

4-  ایسا بھی ہوتا ہے کہ گیند سے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ جائیں.

5-  دورانِ کھیل جھگڑا ہو جائے، شور شرابا ہو، گالم گلوچ ہو اور ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہوجائے جس سے اہلِ محلہ کو تکلیف بھی ہوتی ہو.

اب اس قسم کے کھیل کا شرعی حکم دلائل کی روشنی میں مطلوب ہے کہ آیا یہ کھیل کھیلنا جائز ہوگا جن میں اس قسم کی باتیں پائی جائیں یا لغویات میں شامل ہو کر فقط ایک مکروہ یا مباح عمل کہلائے گا؟

جواب

کرکٹ کھیل اگر بدن کی ورزش ، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کم از کم طبیعت کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کھیلا جائے، اور اس میں غلو نہ کیا جائے ،  اسی کو مشغلہ نہ  بنایا جائے،  عبادات اور ضروری کاموں میں اس سے حرج نہ پڑے اور اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ ہو  تو  جسمانی ورزش کی حد تک  کرکٹ کھیلنے کی گنجائش ہے۔

لیکن کرکٹ میں مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جوا وغیرہ  ہو یا اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچائی جائے یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو یہ جائز نہیں ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں ذکر کردہ خرابیاں اگر واقعۃً  پائی جائیں تو ایسی عوامی جگہوں پر یا گالم گلوچ وغیرہ کے ساتھ  کرکٹ کھیلنا درست نہیں ہے۔  بدن کی ورزش کے لیے کسی گراؤنڈ میں  جہاں لوگوں کو تکلیف اور ایذا نہ ہو وہاں شرعی امور کا خیال رکھتے ہوئے کھیلا جائے تو  یہ منع نہیں ہے۔

اگر قریب میں گراؤنڈ یا کشادہ جگہ نہ ہو، اور گلیوں میں کھیلتے ہوئے راہ گیروں کا خیال رکھا جائے، ان کے گزرتے وقت وقفہ کیا جائے، اردگرد ایسی املاک نہ ہوں (مثلاً: کھڑکیوں کے شیشے وغیرہ) جنہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، اور گھروں میں گیند نہ جاتی ہو  یا چلی جانے کی صورت میں اہلِ خانہ کو حرج نہ ہو اور انہیں تنگ نہ کیا جائے، نیز گالم گلوچ اور شووغل سے بھی مکمل اجتناب  کیا جائے تو جواب میں ذکر کردہ ابتدائی شرائط کے ساتھ گنجائش ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں