میری عمر 44 سال ہے، میں اپنی بیوی کا حقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتا، یعنی مردانہ دوائی اثر نہیں کر رہی ہے۔ میری بیوی میرے ساتھ زندگی گزار رہی ہے ، میرے دو بیٹیاں ہیں، میری بیوی میرے ساتھ خوش ہے اور طلاق لینا نہیں چاہتی۔ کیا میرے لیے طلاق دینا لازمی ہے، جب کہ شوگر کی وجہ سے دوسال سے نامرد ہو ں؟
اگر سائل کی بیوی طلاق نہیں لینا چاہتی اور دونوں برضا و خوشی ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو سائل پر طلاق دینا ضروری نہیں۔
"إن قولهم بإباحته وإبطالهم قول من قال: لايباح إلا لكبر أو ريبة، «بأنه صلى الله عليه وسلم طلق حفصة»، ولم يقترن بواحد منهما مناف لقولهم: الأصل فيه الحظر؛ لما فيه من كفران نعمة النكاح، والإباحة للحاجة إلى الخلاص". (رد المحتار، 3/ 228 ط: سعید)
"ويسقط حقها بمرة ويجب ديانةً أحيانًا و لايبلغ مدة الإيلاء إلا برضاها.
(قوله: ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانةً، لكن لايدخل تحت القضاء، والإلزام إلا الوطأة الأولى، ولم يقدروا فيه مدةً، و يجب أن لايبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به اهـ قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ قلت: فيه نظر، بل هو حقه وحقها أيضًا لما علمت من أنه واجب ديانةً". (حاشية رد المحتار، کتاب النکاح، باب القسم (3 / 202) ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200684
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن