بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عنین کی زوجہ کا حکم


سوال

ارم کی شادی زید سے ہوتی ہے اور رخصتی کے کچھ دن بعد ہی ارم کو معلوم ہوتا ہے کہ زید کسی مردانہ بیماری کی وجہ سے اپنی بیوی کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے اور وہ کبھی اس بیماری سے صحت یاب نہیں ہوسکتا. اس صورت میں نکاح پر کیا اثر پڑے گا ؟  کیا ارم کو زید کے ساتھ رہنا چاہیے کہ طلاق لے لینی چاہیے؟ اور زید کے گھر والے زید کی بیماری کے بارے میں شادی سے پہلے بھی جانتے تھے اس کے باوجود بھی زید کی شادی کرنا کیا دھوکے میں شمار ہے ؟

جواب

مسئولہ صورت میں اگر خلوتِ صحیحہ پائی گئی؛  تو اگر شوہر بلاشرط طلاق دے تو اُسے پورا  مہر ادا کرنا  لازم ہوگا، نیز عورت کو خلع لینے کا بھی حق حاصل ہے، یعنی مہر معاف کرکے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کرے، اور اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو اور حقوقِ  زوجیت ادا کیے بغیر عورت کی عفت وعصمت کا تحفظ دشوار ہو، تو عورت کو چاہیے کہ عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے اور اس کے حکم اور شرعی طریقے کے مطابق اپنا نکاح ختم کرالے۔ زید کی بیماری جاننے کے باوجود اس کو  بے عیب ظاہر کرنا ان کی  جانب سے دھوکا ہے،  جس پر ان کو  لڑکی والوں  سے معافی مانگنی چاہیے۔ 

مذکورہ شخص کو فقہی اصطلاح میں ’’عنین‘‘ کہا جاتاہے، اور ’’عنین‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کا تفصیلی طریقہ یہ ہے:

مذکورہ عورت مسلمان جج یا قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے کہ میرا شوہر عنین ہے اور آج تک اس نے ایک مرتبہ بھی میرا حق ادا نہیں کیا، اس لیے میں اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، مجھے شرعی اصولوں کے مطابق اس کے نکاح سے علیحدہ کر دیا جائے، قاضی شوہر سے اس بات کی تحقیق کرے اور وہ خود قبول کرے کہ وہ آج تک اس عورت سے وطی پر قدرت نہیں پا سکا تو اسے ایک سال علاج کی مہلت دے گا۔
اور ایک سال علاج کے بعد بھی افاقہ نہ ہو اور ایک مرتبہ بھی وطی پر قادر نہ ہو تو عورت دوبارہ قاضی کی عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اس کے ساتھ رہنے پر رضامند نہ ہو تو قاضی شوہر سے اس بات کی تحقیق کرے مرد عورت کی بات قبول کرتا ہو تو قاضی مرد کو کہے کہ اسے طلاق دے کر علیحدہ کر دے، اگر وہ طلاق دے تو بہتر،  ورنہ قاضی عورت کو اس نکاح سے علیحدہ ہونے کا اختیار دے ، اور عورت اس اختیار کو قبول کر کے اس نکاح سے علیحدہ ہو جائے، اس کے بعد عورت عدت گزار کر دوسری جگہ اپنا نکاح کر سکتی ہے۔
"عن عبد اللّٰه رضي اللّٰه عنه قال: یؤجل العنین سنةً، فإن وصل إلیها، وإلا فرّق بینهما ولها الصداق". (المعجم الکبیر للطبراني ۹؍۳۴۳ رقم: ۹۷۰۶)
"والخلوة بلا مانع حسي کالوطء ولو کان الزوج مجبوبا أو عنینًا أو خصیًا في ثبوت النسب وتأکد المهر..." الخ (تنویر الأبصار مع الشامي، ۴؍۲۴۹-۲۵۴ )
"وإذا وجدت المرأة زوجها عنینًا فلها الخیار، إن شاء ت أقامت معه کذٰلک، وإن شاء ت خاصمته عند القاضي وطلبت الفرقة". ( المحیط البرهاني ، کتاب النکاح / الفصل الثالث والعشرون : العنین ۴ ؍ ۲۳۸ المجلس العلمي )
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200744

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں