بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عملیات پر رقم دینے کا حکم


سوال

میں جس لڑکی سے شادی کر نا چاہتا ہوں ، اس لڑکی کے گھر والے شادی کے لیے  راضی نہیں ہو رہے، میں نے دعائیں بھی مانگیں اور کسی کو بھیج کر رشتہ بھی مانگا،  لیکن انکار ہوا، میری اس بات کا میرے ایک دوست کو پتا چلا تو اس نے مجھے کہا کہ میرے پاس ایک بندہ ہے، وہ آپ سے دو ہزار روپے لے گا اور ایک ہفتے میں آپ کا کام کر دے گا، ایک ہفتے بعد اس کے گھر والے خود رشتہ کا کہیں گے، اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ بندہ کون ہے؟ اور اس نے ایسا کیا کام کرنا ہے؟ معلوم نہیں وہ کرے گا بھی یا نہیں؟ لیکن اس نے مجھ سے پیسے لے کر کام کرنے کا کہا ہے تو  کیا اس طرح سے کام کروانا اسلام میں جائز ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ اگر اس لڑکی کے گھر والوں کو راضی کرنا ہو تو کیا کیا جائے؟ 

جواب

رشتے کے لیے تعویذات کا سہارا لینے کے بجائے شائستگی و سنجیدگی کے ساتھ  باوقار طریقے سے رشتے کا پیغام بھیجا جائے، لڑکی والے جس شخص کی بات رکھتے ہوں اسے واسطہ بنالیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے، استخارہ بھی کرلیا جائے، دعا و استخارہ اور جائز حدود میں سنجیدہ کوشش کے بعد اگر  لڑکی والے پیغام قبول نہ کریں تو دوسری مناسب جگہ رشتہ دیکھ لیا جائے، ایک ہی جگہ اصرار کرنا اور اس کے لیے تعویذ و عملیات کا سہارا لینا (گو شرائط کی رعایت کے ساتھ جائز تعویذ ہو) مناسب نہیں ہے، عموماً وقت گزرنے کے ساتھ تعویذ کا اثر جاتا رہتاہے، اور بعض اوقات ہم آہنگی مشکل ہوجاتی ہے۔

اکابر نے ماثور دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی لکھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے: اے اللہ وہ چیز جو ہمارے لیے مقدر نہ ہو یا وہ ہمارے حق میں بہتر نہ ہو ہم اس کے درپے نہ رہیں۔

لہٰذا اگر لڑکی والے راضی نہیں ہیں، بالخصوص لڑکی بھی راضی نہ ہو تو اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ رشتہ تلاش کیجیے۔

استخارے کا طریقہ جاننے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

استخارہ کا طریقہ

بہر حال تعویذات و عملیات کا ذریعہ اختیار کرنا  اور اس پر معقول معاوضہ لینا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

         لہذا  ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے،  اور اس پر معقول معاوضہ  لینا بھی جائز ہے، اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  اور اس پر اجرت لینا  شرعاً جائز نہیں ہے، آج کل اس سلسلے میں شرعی احکام اور شرائط کی رعایت نہیں رکھی جاتی نیز دھوکا دہی بھی عام ہے، اس لیے مکمل تحقیق اور تصدیق کے بغیر کسی کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ 

 مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

’وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها‘‘.

(7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت) فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144106200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں