بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ میں طواف کے بعد کے دو نفل مقام ابراھیم کے بجائے حطیم میں پڑھنے کا حکم


سوال

اگر عمرہ میں مقام ابراہیم علیہ السلام پر پڑھے جانے والے دو نفل کوئی حطیم میں پڑھ لے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

طواف کے بعد پڑھے جانے والے دو نفل مقام ابراھیم پر پڑھنا افضل ہے،لیکن اگر کوئی شخص یہ نفل مقام ابراھیم کے علاوہ کسی دوسری جگہ (مثلاً حطیم) میں پڑھ لے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، البتہ حدودِ حرم سے باہر پڑھنا مکروہ ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 498):

"(وختم الطواف باستلام الحجر استناناً ثم صلى شفعاً)  في وقت مباح (يجب) بالجيم على الصحيح (بعد كل أسبوع عند المقام) حجارة ظهر فيها أثر قدمي الخليل (أو غيره من المسجد) وهل يتعين المسجد؟ قولان.

 (قوله: عند المقام) عبارة اللباب خلف المقام قال: والمراد به ما يصدق عليه عادةً وعرفاً مع القرب، وعن ابن عمر - رضي الله عنهما - أنه إذا أراد أن يركع خلف المقام جعل بينه وبين المقام صفاً أو صفين، أو رجلاً أو رجلين رواه عبد الرزاق. اهـ. (قوله: حجارة إلخ) ذكره في البحر عن تفسير القاضي لكن عبر بحجر بالإفراد وأنه الموضع الذي كان فيه حين قام عليه ودعا الناس إلى الحج، وحرر بعض العلماء الأعلام أن الحجر الذي في المقام ارتفاعه من الأرض نصف ذراع وربع وثمن، وأعلاه مربع من كل جانب نصف ذراع وربع وعمق غوص القدمين سبع قراريط ونصف (قوله: قولان) لم أر من حكى القولين، سوى ما توهمه عبارة النهر، وفيها نظر، والمشهور في عامة الكتب أن صلاتها في المسجد أفضل من غيره، وفي اللباب: ولاتختص بزمان ولا مكان ولاتفوت، فلو تركها لم تجبر بدم، ولو صلاها خارج الحرم، ولو بعد الرجوع إلى وطنه جاز ويكره، ويستحب مؤكداً أداؤها خلف المقام، ثم في الكعبة ثم في الحجر تحت الميزاب، ثم كل ما قرب من الحجر، ثم باقي الحجر ثم ما قرب من البيت، ثم المسجد ثم الحرم، ثم لا فضيلة بعد الحرم بل الإساءة اهـ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں