بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ میں فرق


سوال

"علیہ اسلام" اور "رضی اللہ تعالی عنہ" میں کیا فرق ہے؟ اور کسے "علیہ اسلام" اور کسے "رضی اللہ تعالی عنہ" کہا جاسکتا ہے؟

جواب

1۔ " علیه الصلوۃ والسلام'' کا استعمال اصلاً انبیاء کرام کےساتھ مخصوص ہے،اس  لیے اسے انبیاءِ  کرام کے  لیے ہی استعمال کرناچاہیے،البتہ ضمناًدیگرحضرات کاتذکرہ ہوتوان کے  لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں، مثلاً پہلے انبیاء ِ کرام کا ذکر ہو، اور پھر صحابہ کرام  کاتذکرہ ہو ، تو سب کے  لیے علیہم السلام  کہنا درست  ہے۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

"واضح رہے کہ کسی بزرگ کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" کا لفظ کہنا شرعاً ممنوع نہیں ہے؛ کیوں کہ "علیہ السلام" کا معنیٰ ہے: "اس پر سلامتی ہو"، اور ہم آپس میں بھی جو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں "السلام علیکم" اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ "تم پر سلامتی ہو"، تو شرعاً اس کے کہنے میں کچھ ممانعت نہیں ہے، البتہ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، اور "رضی اللہ عنہ" کے الفاظ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ شعائرِ اہلِ سنت میں سے ہے، جو کوئی اس کے خلاف کرتاہے وہ شعائرِ اہلِ سنت کے خلاف کرتاہے۔ فقط واللہ اعلم"

کتبہ: محمد ولی درویش (17/1/1403)

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلايستعمل في الغائب و لايفرد به غير الأنبياء فلايقال: علي -عليه السلام- وسواء في هذا الأحياء و الأموات إلا في الحاضر، فيقال السلام أو سلام عليك أو عليكم وهذا مجمع عليه اهـ.

أقول: و من الحاضر السلام علينا و على عباد الله الصالحين، و الظاهر أن العلة في منع السلام ما قاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع، و لأن ذلك مخصوص في لسان السلف بالأنبياء عليهم الصلاة والسلام، كما أن قولنا عز وجل مخصوص بالله تعالى، فلايقال: محمد عز وجل، و إن كان عزيزًا جليلًا، ثم قال اللقاني: وقال القاضي عياض الذي ذهب إليه المحققون، وأميل إليه ما قاله مالك وسفيان، واختاره غير واحد من الفقهاء والمتكلمين أنه يجب تخصيص النبي صلى الله عليه وسلم و سائر الأنبياء بالصلاة والتسليم كما يختص الله سبحانه عند ذكره بالتقديس والتنزيه، و يذكر من سواهم بالغفران والرضا كما قال الله تعالى - رضي الله عنهم ورضوا عنه يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان - وأيضا فهو أمر لم يكن معروفا في الصدر الأول، وإنما أحدثه الرافضة في بعض الأئمة والتشبه بأهل البدع منهي عنه فتجب مخالفتهم."

(مسائل شتی،ج:6،ص:753،ط:ایچ ایم سعید)

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ  "علیہ السلام"  لکھنے کوشعارِ شیعہ واہلِ بدعت فرمایاہے،اس  لیے وہ منع فرماتے ہیں..."۔

  (فتاوی محمودیہ19/145،فاروقیہ)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:

"أن قوله: "علي علیه السلام" من شعار أھل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام."

(فقہ اکبرص:167،ط:قدیمی)

2۔ "رضی اللہ عنہ " ایک دعایئہ کلمہ ہے جس کے معنی ہیں اللہ ان سے راضی ہوجائے۔ عرف کے اعتبار سے یہ کلمہ صحابہ کے لیے استعمال ہوتاہے،  لیکن اپنے دعائیہ مفہوم کے اعتبار سے غیر صحابی کے لیے بھی استعمال ہوسکتا ہے، بشرطیکہ التباس لازم نہ آتا ہو۔ قرآن کریم کی سورۃ بینہ  پارہ  30 میں نیکو کار مومنین کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے: "رضي اللہ عنھم ورضوا عنه"،  عوام الناس اس کلمے کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی کے ساتھ خاص سمجھتے  ہیں اور  ان کا دھیان اس جملے سے صحابہ کی طرف جاتا ہے؛  اس لیے ان کے سامنے غیر صحابی کے لیے اس جملے کے استعمال سے گریز اچھا  ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ  ملاحظہ کیجیے:

حسین علیہ السلام کہنے کاحکم

صحابی کے لیے علیہ السلام کا استعمال

علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ کا استعمال

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202200543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں