بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علی ولی اللہ کہنے کا حکم


سوال

"على ولى الله" پڑھنے سے متعلق  حکم درکار ہے، اس موضوع کو لے کر سنی اور شیعہ فرقوں میں کافی بحث کی جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سنی مکتب فکر کے لوگوں کو نہ ہی تو اس بارے میں بتایا جاتا ہے،  نہ ہی ہمارے کسی سلیبس میں یہ شامل ہوتا ہے۔ برائے مہربانی امت محمدیہ کو اس بارے میں وضاحت کے ساتھ رہنمائی فرمائیں کہ کیا "علی ولی اللہ" پڑھنا جائز ہے، کیا اس کا ماننا دین کے اہم حصوں میں سے ایک ہے، اگر کوئی مسلمان اسے پڑھے اور مانے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس پر کیا حکم ہے، کیونکہ سنی مسلک میں اکثر لوگ اس کو جانے اور سنے بغیر ہی مر جاتے ہیں۔ اگر سیدنا علی اور اہل بیت کا یہ مرتبہ ہے (یعنی صحابہ سے زیادہ) تو ہمارے علماء حضرات اسے کھل کر بیان کیوں نہیں کرتے اور یہ باتیں ہمیں کیوں نہیں بتائی اور پڑھائی جاتیں؟ برائے مہربانی اس کا واضح کھلے اور آسان الفاظ میں جواب دیں اور امت مسلمہ کی تصحیح فرمائیں۔

جواب

علی ولی اللہ کا مطلب ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے دوست ہے، اور اس میں کسی مسلمان کو ادنی شبہ کی بھی گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:" اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا"(سورۂ بقرہ، آیت:257)، یعنی   اللہ تعالیٰ ساتھی اور دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو بچوں میں  اول المؤمنین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ہیں، عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، اسی طرح باقی تمام صحابہ بھی اللہ کے ولی ہیں ، اس لیے اہلِ  سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں اپنی رضا کا پروانہ دےدیا  تھا، باقی اس جملہ کو کلمے اور اذان وغیرہ میں شامل کرنا قطعًا جائز  نہیں ہے؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ہے۔

"شیعہ "  نے   رسول اللہ ﷺ سے امت کا تعلق،  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پہلے دن سے کاٹ دینا چاہا، اور اس نے اسلام کی  بنیادوں کو  اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی،  "شیعہ " اسلام کے کلمہ پر راضی نہیں، بلکہ اس میں "علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفته بلافصل"  کی پیوندکاری کرتے ہیں، اسی طرح اذان میں یہ لفظ کسی صحیح کیا ،ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے، اور شیعہ اس جملہ کو اپنی اذان وغیرہ میں شامل کرتے ہیں، لہذا اسے اذان یا کلمہ میں شامل کرنا جائز نہیں ہے۔چنانچہ اس غلط نظریے کا حصہ اور عکاس ہونے کی وجہ سے اس لفظ کا پڑھنااور عام کرنا درست نہیں ہے۔

نیز یہ کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولی اللہ ماننا اور باقی صحابۂ کرام کو ولی اللہ نہ ماننا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔

الخطط للمقریزی میں ہے:

"وحدث أيضا في زمن الصحابة رضي الله عنهم مذهب التشيع لعليّ بن أبي طالب رضي الله عنه، والغلوّ فيه، فلما بلغه ذلك أنكره وحرّق بالنار جماعة ممن غلا فيه وأنشد: لمّا رأيت الأمر أمرا منكرا : اجّجت ناري ودعوت قنبرا.

وقام في زمنه رضي الله عنه عبد الله بن وهب بن سبأ، المعروف بابن السوداء السبأي، وأحدث القول بوصية رسول الله صلى الله عليه وسلم لعليّ بالإمامة من بعده، فهو وصيّ رسول الله صلى الله عليه وسلم وخليفته على أمّته من بعده بالنص، وأحدث القول برجعة عليّ بعد موته إلى الدنيا، وبرجعة رسول الله صلى الله عليه وسلم أيضا، وزعم أنّ عليا لم يقتل، وأنه حيّ وأن فيه الجزء الإلهيّ...الخ."

(المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار ، ‌‌ذكر الحال في عقائد أهل الإسلام، 4/ 189، ط: دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں