بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء وصلحاء کی زیارت اور ان کی دعائیں حاصل کرنے کی نیت سے سفر کرنا


سوال

علماء اور صلحاء کے پاس دعا کے لیے سفر کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بعض نے اس کو بدعت کہا، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

علماء وصلحاء کی زیارت کرنا اور ان کی دعائیں لینا اور اس مقصد کے لیے سفر کرنا جائز اور خیر برکت کا ذریعہ ہے۔

 باقی اگر شبہ کی بنیاد یہ حدیث ہو کہ  ” تین مساجد (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ، اور مسجد نبوی) کے علاوہ  کے لیے رخت سفر نہ باندھو“  تو اس کا  صحیح مطلب ومعنی میں کئی اقوال بیان کیے جاتے ہیں، ایک یہ ہے کہ   تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد چوں کہ رتبہ میں برابر ہیں؛ اس لیے ان  کے علاوہ دیگر مساجد کو ایک دوسرے پر فوقیت دے کر ان کی طرف سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے جب سب رتبہ میں برابر ہیں تو گویا بے فائدہ سفر ہوگا، لہذا  صرف تین مساجد کی طرف ان کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے سفر کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی مساجد کے علاوہ دیگر اسفار اس حدیث سے مراد نہیں ہیں، کیوں کہ اگر اسے عموم پر محمول کیا جائے تو سفرِ جہاد، یا والدین و اقرباء کی زیارت اور تجارت کی غرض سے سفر بھی خارج ہوجائے گا، جب کہ یہ سب اسفار بلاشبہ جائز، بلکہ بعض مواقع پر ضروری ہوتے ہیں۔ 

ایک قول یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں قصر حقیقی نہیں، بلکہ قصرِ اضافی ہے یعنی کسی نے نماز پڑھنے کی نذر مانی اور کہا کہ میں فلاں  فلاں علاقے میں واقع فلاں مسجد میں نماز ادا کروں گا تو اس کے لیے یہ ہے کہ اپنی مسجد میں نماز اداکرے ، سوائے ان تین مساجد کی (مسجد حرام ،مسجد نبوی ا اور مسجد اقصی اور ایک قول کے مطابق صرف پہلی دو میں) کہ اگر کسی نے ان مذکورہ تین مساجد میں سے کسی میں نماز پڑھنے کی منت مانی تو اس پر لازم ہے کہ وہ وہاں جاکر اسی مذکورہ مطلوب نذر مسجد میں نماز ادا کرے ، اس کے بغیر اس کی نذر پوری نہیں ہوگی ،جیسا کہ حافظ ابن حجر نقل فرماتے ہیں:

"ومنها: أن النهي مخصوص بمن نذر على نفسه الصلاة في مسجد من سائر المساجد غير الثلاثة، فإنه لايجب الوفاء به قاله بن بطال، وقال الخطابي: اللفظ لفظ الخبر ومعناه الإيجاب فيما ينذره الإنسان من الصلاة في البقاع التي يتبرك بها أي لايلزم الوفاء بشيء من ذلك غير هذه المساجد الثلاثة. ومنها: أن المراد حكم المساجد فقط، وأنه لاتشد الرحال إلى مسجد من المساجد للصلاة فيه غير هذه الثلاثة، وأما قصد غير المساجد لزيارة صالح أو قريب أو صاحب أو طلب علم أو تجارة أو نزهة فلايدخل في النهي، ويؤيده ما روى أحمد من طريق شهر بن حوشب قال: سمعت أبا سعيد وذكرت عنده الصلاة في الطور، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاينبغي للمصلي أن يشد رحاله إلى مسجد تبتغى فيه الصلاة غير المسجد الحرام والمسجد الأقصى ومسجدي، وشهر حسن الحديث وإن كان فيه بعض الضعف". (فتح الباري لابن حجر (3/ 65)

بلکہ بزرگوں کے انتقال کے بعد ان کی قبور کی زیارت کے لیے بھی سفر کرنا منع نہیں ہے، جیساکہ امام غزالی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

’’ثواب کی نیت سے سفر کرنے کی جملہ اقسام  میں انبیاءِ کرام کی قبورِ مبارکہ کی زیارت کے لیے اور صحابہ کرام ، تابعین اور تمام علماءِ کرام اور اولیاءِ عظام اور ہر اس شخص کی قبر کی زیارت کے لیے جس کی حیات میں اس کے مشاہدے  سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا اب اس کی وفات کے بعد اس کی قبر کی زیارت سے برکت حاصل کرنے کے سفر کرنا یہ سب اس میں داخل ہے، اور اس غرض کے لیے سفر کرنا جائز ہے، اور آپ ﷺ کے اس قول کہ” تین مساجد (مسجد حرام، مسجد اقصیٰ، اور مسجد نبوی) کے علاوہ  کے لیے رخت سفر نہ باندھو“ کی ممانعت میں یہ داخل نہیں ہے، اس لیے کہ یہ دیگر مساجد کے بارے میں ہے، اس لیے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر تمام مساجد رتبہ میں برابر ہیں،  اور انبیاء ، اولیاء اور علماء کی قبر کی زیارت کے لیے سفر نفسِ فضیلت میں برابر ہے، اگرچہ  اللہ کے یہاں ان کے درجات مختلف ہونے کی وجہ سے اس کے درجات میں بہت بڑا فرق ہے۔انتھی
إحياء علوم الدين (2/ 247):
"ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام وزيارة قبور الصحابة والتابعين وسائر العلماء والأولياء وكل من يتبرك بمشاهدته في حياته يتبرك بزيارته بعد وفاته ويجوز شد الرحال لهذا الغرض ولايمنع من هذا قوله صلى الله عليه وسلم: لاتشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجدي هذا والمسجد الحرام والمسجد الأقصى؛ لأن ذلك في المساجد فإنها متماثلة بعد هذه المساجد وإلا فلا فرق بين زيارة قبور الأنبياء والأولياء والعلماء في أصل الفضل وإن كان يتفاوت في الدرجات تفاوتًا عظيمًا بحسب اختلاف درجاتهم عند الله".

لہذا جو علماء وصلحاء حیات ہیں ان کی زیارت  اور ان سے فیض حاصل کرنے لیے سفر کرنا بلاشبہ جائز ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں