بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

علمائے ازہر، علمائے دیوبند کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟


سوال

ازہر  یونیورسٹی مصر کے علما  کی  علمائے دیوبند کے بارے میں کیا رائے ہے؟ جیسے اہلِ بدعت ، علمائے دیوبند کی تکفیر کرتے ہیں تو کیا  ازہر یونیورسٹی مصر کے علما بھی علمائے  دیوبند کی تکفیر کرتے ہیں؟ کیا ازہرکے علما کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم غیب دان تھے اور حاضر ناظر بھی  اور مختار کُل بھی؟کیوں کہ بریلوی حضرات ، ازہر کے علما کو اپنے ہم مسلک علما بتاتے ہیں۔

جواب

ہماری معلومات کے مطابق علمائے ازہر عام طور پر جمہور اہلِ سنت و الجماعت اور اشاعرہ کے مسلک پر ہیں، جزوی طور پر ازہر سے جڑی بعض شخصیات کا عقیدہ یا عمل جدا ہونا باعثِ تعجب نہیں، لیکن ایسی انفرادی آراء و اعمال کو جامعہ ازہر یا علمائے ازہر کی جانب منسوب کرنا درست نہ ہوگا، ہندوستان میں علمائے دیوبند کی تحریک کے متعلق علمائے ازہر کی مثبت آراء رہی ہیں، دونوں اداروں اور ان کے منتسبین  میں باہم ربط و تعلق کی تاریخ بھی محفوظ ہے، ماضی قریب کے شیخ الازہر عبد الحلیم محمود رحمہ اللہ کے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ سمیت بہت سے علمائے دیوبند کے ساتھ دیرینہ مراسم رہے ہیں، ان کےعلاوہ بھی بہت سے ازہری اہلِ علم ہمارے اداروں میں آتے جاتے رہے ہیں، اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف آراء میں باہم اختلاف بھی چلا آرہا ہے۔

متحدہ ہندوستان میں کچھ لوگوں نے اس کی کافی کوشش کی کہ علمائے حجاز و دیگر عرب علماء سے علمائے دیوبند کی تکفیر کا فتویٰ جاری کرایا جائے، جس کی تفصیل مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ اللہ کی کتاب ’’المهنّد على المفنّد‘‘میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے، لیکن علمائے ازہر نے علمائے دیوبند کی تکفیر کا فتوی نہیں دیا۔ بریلوی حضرات بعض مسائل میں جامعہ ازہر کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں، لیکن ان کا کلی طور پر علمائے ازہر کو اپنا ہم نوا و ہم مسلک قرار دینا تاریخی، زمینی و علمی حقائق کے اعتبار سے درست نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے مولانا عبید اللہ اسعدی مد ظلہ کی عربی کتاب ’’علماء دیوبند‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں