بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کا اجتماع


سوال

آپ سے ایک رسم کے حوالے سے راہ نمائی کی درخواست کی تھی،  جس کا جواب فتوی نمبر  144105200649 کے تحت دیا گیا ہے۔ جو کہ درج ذیل ہے:

سوال:

ایک رسم کے متعلق راہ نمائی درکار ہے کہ جب کسی گھرانے میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو پیدائش کے ساتویں روز دن یا رات کے اوقات میں گاؤں کے لوگ اور دوست احباب اس گھرانے میں آتے ہیں, مرد حضرات حجرے یعنی بیٹھک میں, جب کہ مستورات گھر میں بیٹھتی  ہیں۔ مستورات بچے کو پیسے دیتی ہیں، اور گھر والے مرد اور عورتوں کو مٹھائی کھلاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ رسم منانا بدعت میں شامل ہے یا نہیں? اگر بدعت نہیں تو اس رسم کا منانا جائز ہے یا ناجائز ? اگر جائز ہے تو افضل طریقہ کیا ہوگا؟

 جواب:

بچے کی پیدائش پر رشتہ داروں اور دوست احباب کی جانب سے نومولود کو کا بطورِ  تحفہ نقدی یا کپڑے وغیرہ دینا فی نفسہ مباح عمل  ہے،  جو  صلہ رحمی کے طور پر  دینے کی صورت میں باعثِ اجر و  ثواب  بھی ہے۔   البتہ  جہاں لین دین کا رواج محض رسمی طور پر ہو، اور دینے لینے والوں کا مقصد صلح رحمی نہ ہو ، بلکہ تحفہ  اس غرض سے دیا جائے کہ ہماری خوشی میں بھی یہ لوگ  تحفہ دیں گے، یعنی  بدلہ چکانا یا بدلہ حاصل کرنا پیشِ نظر ہو، یا شرما حضوری میں  دینا کہ اگر نہ دیا  تو لوگ کیا کہیں گے؟ یا حیثیت  نا ہو نے  کے باوجود ، تحفہ  دینے کو ضروری سمجھنا،  اور تحفہ نہ ملنے یا کم ملنے پر  شکوہ شکایت کی جاتی ہو ،  اور حساب کتاب رکھا جاتا ہو کہ کس نے کتنا دیا کہ ہم بھی اتنا ہی انہیں واپس کریں گے، یا اس قسم کی غیرضروری پابندیوں کی رعایت کی جاتی ہو  تو اس صورت میں پیدائش کے موقع پر مذکورہ رواج   واجب الترک ہوگا۔ لہذا  صورتِ مسئولہ میں پیدائش کے موقع پر   اگر محض رواج کے طور پر دینے کا اہتمام کیا جاتا ہو، تو ایسے رواج کو ترک کرنا ضروری ہوگا،  البتہ اگر کوئی برضا و خوشی تحفہ دے تو لینے کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم

درج بالا سوال و جواب کی روشنی میں معلوم یہ کرنا ہے کہ عقیقہ کی سنت کے ادا ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں خواتین و حضرات کا رات کے وقت اجتماع اور ان میں مٹھائی وغیرہ کا تقسیم جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں،عقیقہ کرنا مستحب ہے، اگر اس کے لیے رشتہ داروں کو جمع کیا جائے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ ہو تو سوال میں مذکور شرائط کے ساتھ یہ بھی جائز ہے۔اجتماع میں پردے کے احکامات کی پابندی بہر صورت لازم ہے۔

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". ( المستدرك علی الصحیحین للحاکم، (4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

إعلاء السننمیں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقة، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فتاوی شامیمیں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘. (6/ 336، کتاب الأضحیة، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں