بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیق پتھر کے بارے میں حدیث کی تحقیق


سوال

عقیق پتھر کے متعلق کیا کوئی حدیث ہے؟ اور اس کا پہننا کیسا ہے؟

جواب

عقیق پتھر کے بارے میں مختلف روایتیں نقل کی گئی ہیں جو موضوع یا شدید ضعیف ہیں، ایک روایت امام طبرانی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے:

"حدثنا أحمد بن يحيى بن خالد بن حيان قال: حدثنا زهير بن عباد قال: حدثنا أبو بكر بن شعيب عن مالك بن أنس عن الزهري عن عمرو بن الشريد عن فاطمة عن رسول الله قال: من تختم بالعقيق لم يزل يرى خيرًا. لم يرو هذا الحديث عن مالك إلا أبو بكر بن شعيب، تفرد به زهير بن عباد". (المعجم الأوسط للطبراني: ۱/۳۹،رقم الحدیث :۱۰۳،ط:دارالحرمین قاہرہ)

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ امام مالک رحمہ اللہ پر جھوٹ ہے، عبارت ملاحظہ فرمائیں:

"أبو بكر بن شعيب عن مالك بن أنس قال ابن حبان: لايجوز الاحتجاج به، روى عن زهير بن عباد حدثنا أبو بكر بن شعيب عن مالك عن الزهري عن عمرو بن الشريد عن فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعًا: "من تختم بالعقيق لم يزل يرى خيرًا". هذا كذب، انتهى. ذكره ابن حبان في الضعفاء، وأورد له الحديث عن محمد بن جعفر البغدادي عن أحمد بن يحيى بن خالد بن حيان عن زهير بن عباد عنه، وقال أبو بكر: هذا يروي عن مالك ما ليس من حديثه لايحلّ الاحتجاج به، وأخرجه الطبراني في الأوسط عن أحمد بن يحيى هذا، وقال: لم يروه عن مالك إلا أبو بكر، تفرد به زهير". (لسان المیزان :۷/۷، رقم الترجمہ :۱۳۲)

واضح رہے کہ   انگوٹھی میں جو مختلف قسم کے پتھر تاریخِ پیدائش یا نام کے حساب سے لگوائے جاتے ہیں، (مثلاً: عقیق، فیروز، یاقوت وغیرہ) اس کے بارے میں یہ اعتقاد ویقین رکھنا کہ فلاں پتھر میری زندگی پراچھے اثرات ڈالتا ہے یہ عقیدہ غلط ہے؛ لہذا اس عقیدے کے ساتھ انگوٹھی پہننا ناجا ئز وحرام ہے۔ زند گی پراچھے برے اثرات انسان کے اپنے عملِِ صالح یا عملِِ بد سے آتے  ہیں، نہ کہ پتھرسے۔ مذکورہ عقیدہ نہ ہوتو  اپنے ذوق کے اعتبار سے کوئی بھی پتھر لگایا جاسکتا ہے۔

لیکن کسی حدیث سے اسے متعلق کرنا یا احادیث کی طرف اس کے کسی فائدہ کو منسوب کرنا درست نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان کے زمرے میں آئے گا، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

لکی پتھر اور لکی نمبر جاننے کا حکم


فتوی نمبر : 144106200782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں