بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عقد بیع میں ’’ان شاء اللہ‘‘ کہنے کا حکم


سوال

اگر عقد بیع کرتے ہوئے متصلاً ان شاءاللہ  کہہ دیا جائے تو یہ بیع لازم ہوگی یا نہیں؟ یعنی یہ میں آپ کو فروخت کروں گا ان شاءاللہ یا آپ سے خریدوں گا ان شاءاللہ!

جواب

مذکورہ جملوں: ’’ یہ میں آپ کو فروخت کروں گا ان شاءاللہ" یا "آپ سے خریدوں گا ان شاءاللہ‘‘ میں اگر لفظ " ان شاء اللہ" نہ بھی ہو تب بھی یہ بیع میں ایجاب یا قبول نہیں بن سکتے، اس لیے اس طرح کے جملے کہنے سے بیع لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ ایجاب و قبول بننے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ دونوں جملے زمانہ ماضی  پر دلالت کرتے ہوں (جیسے : ’’میں نے خریدا ‘‘ یا  ’’میں نے بیچا‘‘ ) یا دونوں جملے زمانہ حال پر دلالت کریں یا ایک زمانہ ماضی پر اور دوسرا زمانہ حال پر دلالت کرے (جیسے: ’’میں خرید رہا ہوں‘‘ یا ’’میں بیچ رہا ہوں‘‘ )۔ لیکن جو جملہ زمانہ مستقبل پر دلالت کرے وہ نہ تو ایجاب بن سکتا ہے اور نہ ہی قبول بن سکتا ہے۔ لہٰذا سوال میں مذکورہ جملوں کی حیثیت بیع کے ارادہ یا وعدہ کی ہوگی، نہ کہ بیع کی۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ  بیع سے مقصود  ایک جانب سے دوسری جانب  ملکیت کا تبادلہ ہوتا ہے، اور ملکیت کے تبادلہ کے لیے رضامندی شرط ہوتی ہے، اور رضامندی  کا اظہار تعلیق کے ساتھ نہیں ہوسکتا، بلکہ حتمی اور دو ٹوک بات ضروری ہوتی ہے، جب کہ مذکورہ جملوں ’’ یہ میں آپ کو فروخت کروں گا ان شاءاللہ یا آپ سے خریدوں گا ان شاءاللہ‘‘ میں ایجاب  و قبول کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ معلق کیا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کسی کو معلوم بھی نہیں ہے۔ اس لیے ایجاب و قبول کے ساتھ اگر متصلاً  ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ دیا جائے تو اس ایجاب و قبول کا اعتبار نہیں ہوگا اور اس جملے سے بیع لازم نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 510)

'' (وهما عبارة عن كل لفظين ينبئان عن معنى التملك والتمليك ماضيين) كبعت واشتريت، (أو حالين) كمضارعين لم يقرنا بسوف والسين كأبيعك فيقول: أشتريه، أو أحدهما ماض والآخر حال.

(و) لكن (لا يحتاج الأول إلى نية، بخلاف الثاني)، فإن نوى به الإيجاب للحال صح على الأصح، وإلا لا إذا استعملوه للحال كأهل خوارزم، فكالماضي وكأبيعك الآن ؛ لتمحضه للحال، وأما المتمحض للاستقبال فكالأمر لا يصح أصلاً، إلا الأمر إذا دل على الحال، كخذه بكذا، فقال: أخذت أو رضيت صح بطريق الاقتضاء، فليحفظ''۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (12/ 316)

'' لا يجوز في الجملة تعليق البيع على الشرط بالاتفاق، وذلك لأن البيع فيه انتقال للملك من طرف إلى طرف، وانتقال الأملاك إنما يعتمد الرضا، والرضا يعتمد الجزم، ولا جزم مع التعليق''.

الفتاوى الهندية (4/ 396)

''(وجملة ما لا يصح تعليقه بالشرط ويبطل بالشروط الفاسدة ثلاثة عشر) : البيع والقسمة والإجارة والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين والحجر عن المأذون وعزل الوكيل في رواية شرح الطحاوي وتعليق إيجاب الاعتكاف بالشرط والمزارعة والمعاملة والإقرار والوقف في رواية''. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں