آج کل عصر کا وقت 4 بج کر 17 منٹ پر داخل ہوتا ہے، لیکن دوسرے امام کے مطابق عصر کا وقت 3 بج کر 30 منٹ پر داخل ہوتا ہے، اس میں ہم عصر کی نماز 3 بج کر 30 منٹ پر ادا کرسکتے ہیں یا نہیں? اگر ایک شخص کافی دنوں سے نمازیں 3 بج کر 30 منٹ پر نماز عصر ادا کررہا ہے اور کررہی ہے تو اب اس کی نمازیں ہوئیں یا نہیں یا لوٹانی پڑے گی نمازیں دوبارہ؟
ظہر کے آخری وقت اور عصر کے ابتدائی وقت میں مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ ظہر کا وقت اس وقت ختم ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ، سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ہوجائے اور اس کے بعد عصر کاوقت داخل ہوتا ہے، لہٰذا مثلِ ثانی میں عصر کی نماز پڑھنا وقت سے پہلے نماز پڑھنا ہے، اور وقت سے پہلے نماز پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی اس وجہ سے مثلِ ثانی میں (انفرادی طور پر یا حنفی اکثریتی علاقوں میں جماعت سے)پڑھی گئی نمازوں کو لوٹایا جائے۔
’’فتاوی شامی‘‘ میں ہے:
قال ابن عابدين ناقلاً عن السراج:
"هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى: أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض". (۱: ۳۵۹ ط:سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200245
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن