بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز میں امام صاحب نی آہستہ قراءت کی


سوال

امام صاحب نے عشاء کے نماز پڑھائی،  لیکن جہری تلاوت نہیں کی اور سجدہ سہو بھی نہیں کیا،  آیا نماز صحیح ہوئی یا نہیں؟

جواب

بصورتِ صدقِ واقعہ نماز صحیح نہیں ہوئی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَفِي الْوَلْوَالِجِيَّة: الْأَصْلُ فِي هَذَا أَنَّ الْمَتْرُوكَ ثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ: فَرْضٌ وَسُنَّةٌ وَوَاجِبٌ، فَفِي الْأَوَّلِ أَمْكَنَهُ التَّدَارُكُ بِالْقَضَاءِ يَقْضِي وَإِلَّا فَسَدَتْ صَلَاتُهُ، وَفِي الثَّانِي لَا تَفْسُدُ؛ لِأَنَّ قِيَامَهَا بِأَرْكَانِهَا، وَقَدْ وُجِدَتْ، وَلَايُجْبَرُ بِسَجْدَتَيْ السَّهْوِ، وَفِي الثَّالِثِ إنْ تَرَكَ سَاهِيًا يُجْبَرُ بِسَجْدَتَيْ السَّهْوِ وَإِنْ تَرَكَ عَامِدًا لَا، كَذَا التَّتَارْخَانِيَّة. وَظَاهِرُ كَلَامِ الْجَمِّ الْغَفِيرِ أَنَّهُ لَا يَجِبُ السُّجُودُ فِي الْعَمْدِ وَإِنَّمَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ جَبْرًا لِنُقْصَانِهِ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ". (الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي سُجُودِ السَّهْوِ، ١ / ١٢٦، ط: دار الفكر)

البتہ اگر سہواً سری قراءت کی تھی تو ایسی صورت میں مذکورہ (عشاء کی)  نماز کے وقت میں ہی اعادہ واجب تھا، وقت میں اعادہ نہ کرنے کی صورت میں نماز ناقص ادا ہوجائے گی، اب جن لوگوں کو مسئلے کا علم ہو، انہیں اعادہ کرلینا مستحب ہے۔ (بعض اہلِ علم نے وقت کے بعد بھی اعادہ واجب لکھاہے، البتہ ہمارے اکابر نے بعد الوقت اعادہ مستحب لکھاہے۔)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَمِنْهَا الْجَهْرُ وَالْإِخْفَاءُ) . حَتَّى لَوْ جَهَرَ فِيمَا يُخَافَتُ أَوْ خَافَتَ فِيمَا يُجْهَرُ وَجَبَ عَلَيْهِ سُجُودُ السَّهْوِ وَاخْتَلَفُوا فِي مِقْدَارِ مَا يَجِبُ بِهِ السَّهْوُ مِنْهُمَا قِيلَ: يُعْتَبَرُ فِي الْفَصْلَيْنِ بِقَدْرِ مَا تَجُوزُ بِهِ الصَّلَاةُ وَهُوَ الْأَصَحُّ وَلَا فَرْقَ بَيْنَ الْفَاتِحَةِ وَغَيْرِهَا، وَالْمُنْفَرِدُ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ السَّهْوُ بِالْجَهْرِ وَالْإِخْفَاءِ؛ لِأَنَّهُمَا مِنْ خَصَائِصِ الْجَمَاعَةِ، هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ". (الْبَابُ الثَّانِي عَشَرَ فِي سُجُودِ السَّهْوِ، ١ / ١٢٨، ط: دار الفكر)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر كما في الدر وغيره، ويندب إعادتها لترك السنة". (ص: ٢٤٧)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں