بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عزت و ذلت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے


سوال

قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ میں آیا ہے:"وتعز من تشاء و تذل من تشاء"، اس کا معنی اور مفہوم بیان کریں؟

جواب

سوال میں مذکور کلمات 'سورۂ آل عمران' کی آیت نمبر ( 26) کا ایک حصہ ہیں، پوری آیت اور اس کا ترجمہ اس طرح ہے:

﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٦)﴾ 

ترجمہ:" (اے محمد -صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- )! آپ (الله تعالیٰ سے) یوں کہئے کہ اے الله مالک تمام ملک کے آپ ملک جس کو چاہیں دیدیتے ہیں اور جس سے چاہے ملک لے لیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں غالب کردیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں پست کردیتے ہیں آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی ۔ بلاشبہ آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں ۔" (بیان القرآن)

آیت مبارکہ   کے کلمات "وتعز من تشاء و تذل من تشاء" کا لفظی ترجمہ ہے:"اور (اے اللہ! تُو)  جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے"؛ جس کا معنی و مفہوم مختلف تفاسیر کی روشنی میں یہ ہے کہ 'اللہ تعالٰی ہی جس کو چاہتا ہے عزت سے سرفراز فرماتا ہے، اور وہی ہے کہ جس کو چاہتا ہےذلت و رسوائی سے دوچار کردیتا ہے؛ کبھی اس کی  صورت یہ ہوتی ہے کہ   وہ کسی کو حکومت و اقتدار دے کر باعزت بناتا ہے، اور دوسرے کو محکوم بنا کر ذلت کا مزہ چکھاتا ہے، سو مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے رب ہی سے عزت و غلبہ کی دعا کیا کریں، اور غلبہ و اقتدار کی خاطر کبھی بھی احکامِ شریعت کو فراموش نہ کریں'۔ چناں چہ کلامِ الٰہی میں ایک اور جگہ ارشاد ہے: "﴿أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ ‌فَإِنَّ ‌الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (سورۂ نساء:١٣٩)﴾  "، یعنی :"کیا کافروں کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ عزت تو ساری اللہ ہی کے لیے ہے"؛ سو اللہ خود عزیز ہے، وہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ اسی طرح ارشادِ باری تعالٰی ہے: "﴿وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ(سورۂ منافقون:٨)﴾ "، ترجمۂ بیان القرآن: "اللہ کی ہے عزت (بالذات ) اور اس کے رسول (علیہ السلام) کی (بواسطہ تعلق مع اللہ کے ) اور مسلمانوں کی (بواسطہ تعلق مع اللہ والرسول کے ) ولیکن منافقین جانتے نہیں  "۔

محدث و مفسر علامہ محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ  اپنی تفسیر 'معارف القرآن' میں لکھتے ہیں:

"بشارتِ غلبۂ مومنین براعداء بعنوان مناجات ودعا"، [یعنی دعا کی شکل میں دشمنانِ اسلام پر مسلمانوں کے غلبے کی خوش خبری] :

کفار، دنیا اور سامان دنیا پر مغرور تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب اور احباب کو فقر وفاقہ کی وجہ سے بنظر حقارت دیکھتے تھے، اس آیت میں اسی کے جواب کی طرف اشارہ ہے کہ سلطنت اور دولت کا عروج اور نزول اور عزت اور ذلت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے؛ اور مسلمانوں کو حکم ہوا کہ اس طرح دعا مانگو، ہم تم کو بےمثال سلطنت عطا کریں گے، جس کو یہ مذاق اڑانے والے بھی دیکھ کر حیران اور دنگ رہ جائیں گے۔ گویا  یہ دعا ایک طرح کی پیشین گوئی تھی، کہ عنقریب دنیا کی کایا پلٹ ہونے والی ہے اور یہ بےسروسامان مسلمان قوم عزتوں اور سلطنتوں کی مالک بنے گی، اور جو بادشاہت کررہے ہیں وہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ذلت کے گڑھے میں گرائے جائیں گے؛ اور یہ ماد ی سلطنت کیا چیز ہے؟ جس خداوندِذوالجلال نے نبوت و رسالت کے منصبِ جلیل کو بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی طرف منتقل کردیا، تو اُسے روم وعجم کی ظاہری سلطنت کا عرب کے خانہ بدوشوں کی طرف منتقل کردینا کیا مستبعد (دور کی بات) ہے۔"

(معارف القرآن،  مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ، 590/1، ط: مکتبۃ المعارف، شہداد پور سندھ)

مختصر تفسیر :

"( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ ( اللہ تعالیٰ سے ) یوں کہیے کہ اے اللہ مالک تمام ملک کے آپ ملک ( کا جتنا حصہ چاہیں) جس کو چاہیں دیدیتے ہیں اور جس ( کے قبضہ) سے چاہیں ملک ( کا حصہ) لے لیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں غالب کردیتے ہیں اور جس کو آپ چاہیں پست کردیتے ہیں آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی بلا شبہ آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں، آپ (بعض موسموں میں) رات ( کے اجزاء) کو دن میں داخل کردیتے ہیں (جس سے دن بڑا ہونے لگتا ہے ) اور ( بعض موسموں میں) ان ( کے اجزاء) کو رات میں داخل کردیتے ہیں ( جس سے رات بڑھنے لگتی ہے ) اور آپ جان دار چیز کو بےجان سے نکال لیتے ہیں ( جیسے بیضہ سے بچہ) اور بےجان چیز کو جان دار سے نکال لیتے ہیں ( جیسے پرندے سے بیضہ ) اور آپ جس کو چاہتے ہیں بےشمار رزق عطا فرماتے ہیں ۔"

(معارف القرآن، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ،  43/2، ط: دار العلوم کراچی)

جنگ خندق کے موقع پر جب کہ مشرکین کے متحدہ لشکر نے مدینہ منورہ کو گھیرا ہوا تھا،  خوف، سردی اور بھوک سے مسلمانوں کا برا حال تھا، اور کلیجے منہ کو آگئے تھے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خندق کی کھدائی کے دوران فارس و روم اور یمن کے محلات دکھائے گئے، کہ آپ کی امت فاتح بن کر ان ملکوں میں اسلام کی حکومت قائم کرے گی۔ تو آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ان فتوحات کی خوش خبری سنائی۔ مگر منافقین کو کہاں یقین تھا، کہ مستقبل اسلام کا ہے اور حق کا بول بالا ہو کر رہے گا؛ وہ تو اس بات کو لے کر مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے کہ ان کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، کہاں روم و فارس اور کہاں یہ دشمنوں کے محاصرے میں آئے ہوئے تھوڑے سے لوگ؟ ان کے پاس تو ڈھنگ کا مال و اسباب بھی نہیں! اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

"جس میں مناجات و دعا کے پیرایہ میں قوموں کے عروج و زال اور ملکوں کے انقلاب میں حق جل شانہ کی قدرت کاملہ کا بیان ایک نہایت بلیغ انداز سے کیا گیا ہے ، اور فارس و روم کی فتوحات کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشنگوئی کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا، اس میں دنیا کے انقلابات سے بےخبر قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے ناواقف، قوم نوح اور عاد و ثمود کے واقعات سے غافل اور جاہل ، دشمنان اسلام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم ظاہری شان و شوکت کے پرستار یہ نہیں جانتے کہ دنیا کی ساری طاقتیں اور حکومتیں سب ایک ذات پاک کے قبضہ قدرت میں ہیں، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ ہے ، وہ بلا شبہ اس پر قادر ہے کہ غریبوں اور فقیروں کو تخت و تاج کا مالک بنادے ، اور بڑے بڑے بادشاہوں سے حکومت و دولت چھین لے ، اس کے لئے کچھ مشکل نہیں کہ آج کے خندق کھودنے والے فقیروں کو کل شام وعراق اور یمن کی حکومت عطا فرمادے ۔"

  ( معارف القرآن، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ،  45/2، ط: دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں