بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عرس و قبر پرستی


سوال

آج کل عرس شہباز قلندر ہورہا ہے, جس میں لوگ دور دور سے شرکت کو آتے ہیں اور قبر پرستی کرتے ہیں, اگر ان کو سمجھاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ تم وہابی ہوگئے ہو, ایسی صورت میں ہم پر کیا ذمہ داری بنتی ہےکہ کس طرح سے روکیں? اور کیا ہم ان کے عمل کے ذمہ دار ہوں گے؟

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر میلہ دھیلہ کرنے اور قبر پرستی سے منع فرمایا ہے ،یہاں تک کہ اپنی قبر مبارک پر بھی میلہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے؛ لہذا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر عرس یا میلہ کرنا ممنوع ہے تو کسی امتی (خواہ وہ ولی اللہ ہو) کی قبر پر عرس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے!  لہذا صورتِ مسئولہ میں ایسے افراد کو  حکمت اور محبت  کے ساتھ سمجھانا چاہیے اور ان کو ان خرافات سے بچانے کی مقدور بھر کوشش کرنی چاہیے، تاہم اگر وہ سمجھانے پر بھی باز نہیں آتے اور جھگڑنے لگتے ہیں تو ایسے افراد سے جھگڑا نہ کیا جائے، البتہ محبت وحکمت سے ان کو سمجھانے کی کوشش جاری رکھی جائے۔

'' 926 - وعنه ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " لا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، ولا تجعلوا قبري عيداً ، وصلّوا علي ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث كنتم "۔ رواه النسائي . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: ( " ولا تجعلوا قبري عيداً " ) : هو واحد الأعياد ، أي : لا تجعلوا زيارة قبري عيداً ، أو لا تجعلوا قبري مظهر عيد ، فإنه يوم لهو وسرور ، وحال الزيارة خلاف ذلك ، وقيل : محتمل أن يكون المراد الحث على كثرة زيارته ، ولا يجعل كالعيد الذي لا يأتي في العام إلا مرتين . قال الطيبي : نهاهم عن الاجتماع لها اجتماعهم للعيد نزهةً وزينةً ، وكانت اليهود والنصارى تفعل ذلك بقبور أنبيائهم ، فأورثهم الغفلة والقسوة ، ومن عادة عبدة الأوثان أنهم لا يزالون يعظمون أمواتهم حتى اتخذوها أصناماً ، وإلى هذا أشار لقوله : " اللّٰهم لا تجعل قبري وثناً يعبد "، فيكون المقصود من النهي كراهة أن يتجاوزوا في قبره غاية التجاوز ، ولهذا ورد : " اشتدّ غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد " ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200596

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں