بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عرس میں شرکت کا حکم


سوال

کیا اللہ کے ولی کے عرس میں شرکت جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر میلہ دھیلہ کرنے اور قبر پرستی سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ اپنی قبر مبارک پر بھی میلہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے؛ لہذا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر عرس یا میلہ کرنا ممنوع ہے تو کسی امتی (خواہ وہ ولی اللہ ہو) کی قبر پر عرس کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے! 

لہذا صورتِ مسئولہ میں مروجہ عرس بدعت ہے اور بدعت کا حصہ بننا شرعاً جائز نہیں۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

" 926 - وعنه ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " لا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، ولا تجعلوا قبري عيداً ، وصلّوا علي ، فإنّ صلاتكم تبلغني حيث كنتم ". رواه النسائي .

( " ولا تجعلوا قبري عيداً " ): هو واحد الأعياد ، أي : لا تجعلوا زيارة قبري عيداً ، أو لا تجعلوا قبري مظهر عيد، فإنه يوم لهو وسرور، وحال الزيارة خلاف ذلك، وقيل: محتمل أن يكون المراد الحث على كثرة زيارته، ولايجعل كالعيد الذي لايأتي في العام إلا مرتين. قال الطيبي: نهاهم عن الاجتماع لها اجتماعهم للعيد نزهةً وزينةً، وكانت اليهود والنصارى تفعل ذلك بقبور أنبيائهم، فأورثهم الغفلة والقسوة، ومن عادة عبدة الأوثان أنهم لايزالون يعظمون أمواتهم حتى اتخذوها أصناماً ، وإلى هذا أشار لقوله: " اللّٰهم لا تجعل قبري وثناً يعبد "، فيكون المقصود من النهي كراهة أن يتجاوزوا في قبره غاية التجاوز، ولهذا ورد: " اشتدّ غضب الله على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں