بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کے دوران میک اپ کرنا


سوال

اگر لڑکی جاب کرتی ہو تو خلع کی عدت میں کیا وہ میک اَپ کرسکتی ہے؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ میاں بیوی دونوں  کی رضا مندی سے اگر خلع ہو تو ایسا خلع شرعاً معتبر اور درست ہوتا ہے اور ایسے خلع کے بعد نکاح ختم ہوجاتا ہے، اس لیے کہ خلع طلاقِ  بائن کے حکم میں ہے، طلاقِ  بائن کی عدت میں مطلقہ کے لیے عدت کی وہی  پابندیاں اور اَحکام ہیں جو ایک بیوہ عورت کے لیے شوہر کے انتقال کے بعد ہوتے ہیں، یعنی بلاضرورتِ شرعی گھر سے نہ نکلنا وغیرہ۔

نیز خلع  کی عدت کے دوران جس طرح بلاضرورتِ شرعی گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں اسی طرح بناؤ سنگھار (میک اَپ) کرنا نئے کپڑے پہننا وغیرہ بھی ناجائز ہے۔

زیرِ  نظر مسئلہ میں عورت کا جاب (ملازمت) پر جانا ہی درست نہیں،  ہاں اگر عورت محتاج ہو  اور جاب کے بغیر گزر بسر کرنا مشکل ہو اور شوہر کے طرف سے عدت کے اندر نان نفقہ نہیں ملتا ہو  اور کسی دوسری جگہ سے بھی نان نفقہ انتظام نہ ہو  تو ایسی صورت میں جاب کرنے کی گنجائش ہے، دن میں نکلے اور رات ہونے سے پہلے گھر لوٹ آئے، لیکن اس دوران میک اَپ، زیب وزینت کی کسی بھی صورت میں شرعاً اجازت نہیں ہے، لہٰذا معتدہ کو شرعی عدت کے لوازمات کی مکمل پابندی کرنی چاہیے۔ اولاً تو عدت کے اندر جاب پر ہی نہ جائے، لیکن اگر جانا مجبوری ہو تو پھر میک اپ، زیب وزینت اختیار نہ کرے، کیوں کہ طلاقِ  بائن کی عدت میں یہ شرعاً منع ہے۔

المسوط للسرخسی میں ہے:

"وللخلع تطليقة بائنة عندنا". (ج:6، ص: 171)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لايقيما حدود الله، فلا بأس بأن تفتدى نفسها منه بمال يخلعها به، فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال". (ج:1، ص: 488، الباب الثامن في الخلع، ط: رشيديه)

قرآن مجید میں ہے:

(فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به). (البقرة)

الدر المختار میں ہے:

"تحد مكلفة مسلمة ولو منكوحة بنكاح صحيح ودخل بها؛ بدليل قوله: إذا کانت معتدة بت أو موت، وإن أمر المطلق؛ لأنه حق الشرع، إظهاراً لتأسف على فوات انكاح بترك الزينة".

وفي الشامي:

"(قوله: إذا كانت معتدة بت) من البت وهو القطع أي المبتوت طلاقها وهي المطلقة ثلاثاً أو واحدةً بائنةً ... قوله: لأنه حق الشرع .. . ولأن هذه الأشياء دواعي الرغبة وهي ممنوعة عن النكاح فتجتنبها لئلاتصير ذريعة إلى الوقوع في المحرم، الهداية. وقوله: بترك الزينة ... أي بجميع أنواعه من فضة وذهب وجواهر، بحر، قال القهستاني: والزينة ما تتزين به المرأة من حلي أو كحل ... المعتدة تجتنب عن كل زينة نحو الخضاب ولبس المطيب". (3/531/ سعيد)

الدر المختار میں  ہے:

"وتعتدان أي معتدة طلاق وموت في بيت  وجبته فيه ولا تخرجان منه إلا أن تخرج أو ينهدم المنزل أو تخاف النهدامة أو تلف ما لها أو لاتجد كراء البيت ونحو ذلك من الضرورات". (3/536/ سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها ... الحداد: الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر". (ج:1، ص: 533، ط: رشيديه)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سنگھار نہ کریں، بلاضرورتِ شدیدہ مکان سے باہر نہ نکلیں، ضرورتِ شدیدہ میں جب نکلیں تو جلد واپس آجائیں، رات اسی مکان میں گزاریں"۔ (13/404) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں