بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کی کم از کم مدت کتنے دن ہوسکتی ہے؟


سوال

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ خلع لینے والی یا طلاق یافتہ عورت کم از کم کتنے دن میں نکاح کرسکتی ہے؟ کسی خاتون نے 22 فروری کی شام کو خلع لیا اور یکم مئی کو (68ویں دن) نکاح کیا، کیا یہ نکاح صحیح ہوا ہے؟

جواب

خلع یا طلاق کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے سے پہلے عورت کے لیے عدت گزارنا لازمی ہے، عدت کی مقدار  تین حیض گزرنا ہے(بشرطیکہ عورت حاملہ نہ ہو؛ کیوں کہ حاملہ کی عدت تو وضع حمل ہے)، اور حمل نہ ہونے کی صورت میں عدت کی کم از کم مقدار انتالیس (39) دن بن سکتی ہے، انتالیس دن سے کم دنوں میں عدت پوری نہیں ہوسکتی ہے، کیوں کہ جس دن طلاق یا خلع لی ہو اگر اس کے فوراً بعد حیض آجائے تو حیض کی کم از کم مدت تین دن ہے، اور طہر کی کم از کم مدت پندرہ دن ہے، لہٰذا اگر تین دن حیض اور پھر پندرہ دن طہر، اس کے بعد پھر تین دن حیض اور پندرہ دن طہر ، پھر تین دن حیض کے لگائے  جائیں تو یہ انتالیس (39) دن ہوجائیں گے، تو گویا انتالیس دن سے پہلے حیض مکمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا عدت بھی پوری نہیں ہوسکتی ہے۔

بہرحال عدت کا تعلق براہِ  راست دنوں سے نہیں ہے، جتنے دنوں میں حیض آجائیں اتنے دن ہی عدت ہوگی؛ کیوں کہ حیض آنے کے اعتبار سے ہر عورت کی عادت مختلف ہوا کرتی ہے، مذکورہ خاتون جس نے بائیس فروری کی شام کو خلع لی اور اڑسٹھ  (68) دن بعد یکم اپریل کو نکاح کیا تو  چوں کہ اڑسٹھ (68) دنوں میں تین حیض کا گزرنا ممکن ہے؛  اس لیے  اگر اس مدت میں اس کے تین حیض گزر گئے ہوں تو اس کی عدت مکمل ہونے کی وجہ سے اس کا دوسرا نکاح درست ہے، عوام میں جو مشہور ہے کہ عدت تین مہینہ میں گزرتی ہے تو یہ بات کلی طور پر درست نہیں ہے؛ کیون کہ ہر عورت کی حیض کی عادت مختلف ہونے کی وجہ سے حیض کی مدت بھی مختلف ہوسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں