بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی طلاق کا حکم


سوال

اگر کسی لڑکی کا نکاح ہوچکاہو،  لیکن لڑکی اس لڑکے سے خوش نہ ہو اور طلاق مانگ رہی ہو،  لڑکا اس لڑکی کو طلاق نہیں دیتا اور لڑکی نے عدالت سے رجوع کرلیا، عدالت نے تین مرتبہ سمن جاری کرکے لڑکے کو بلوایا لیکن وہ لڑکا عدالت نہیں آتا اور نہ ہی وہ طلاق دیتا ہے،  تو کیا لڑکے کی غیر موجودگی میں عدالت اپنے اختیار سے طلاق کا فیصلہ کرسکتی ہے یا نہیں، جب کہ ہمارے ہاں میں تو عدالتوں کا قانون اسی طرح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے، نہ تو  بیوی اپنی مرضی سے شوہر کی رضامندی کے بغیر اپنے اوپر طلاق واقع کر سکتی ہے اور نہ ہی عدالت شوہر کی طرف سے بیوی کو طلا ق دے سکتی ہے۔

 ہاں!  بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں عدالت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان نکاح کو فسخ کر دیں  اور اس کی بنیاد بیوی کی طرف سے جمع کرائے گئے کاغذات میں لکھی گئی وجوہات اور شکایات ہوتی ہیں،  اس لیے ضروری ہے کہ آپ نے کورٹ میں جو کاغذات جمع کرائے ہیں اس کو لے کر کسی دار الافتاء میں حاضر ہو جائیں؛ تا کہ وہ پوری نوعیت دیکھ کر غور کر لیں پھر اس مسئلہ کا حکم واضح کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں