بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی طلاق


سوال

1- کیا فرماتے ہیں علمائے پاکستان عدالتی فیصلے پر طلاق کا کیا حکم ہے؟ آیا طلاق واقع ہوگی کہ نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟  اور اگر ہوگی تو کون سی طلاق ہوگی رجعی یابائن؟

2- کسی لڑکے نے باپ کے گھر میں کھانے سے متعلق طلاق کو معلق کیا تھا، پھر کھایا تو اس کے اس کلمہ پر بیوی یا بیوی کی ماں کا قول معتبر ہوگا کہ نہیں؟  اگر اس طرح طلاق ہوتی ہے تو یہ منکوحہ اس کے بعد شادی کرسکتی ہے کہ نہیں؟

جواب

1- طلاق کا  اختیار صرف شوہر کو ہے، اس لیے شوہر کے زبانی یا تحریری طلاق دیے بغیر یا طلاق کے کاغذات پر اپنے اختیار سے دستخط کیے بغیر عدالت اس کی جانب سے طلاق نہیں دے سکتی، البتہ مخصوص صورتوں میں عدالت ان دونوں کا نکاح ختم کرواسکتی ہے، جن میں سے بعض صورتیں ’’فسخِ نکاح ‘‘کے حکم میں ہوتی ہیں اور کچھ ’’طلاق‘‘  کے حکم میں ہوتی ہیں۔ پھر طلاق کے کاغذ میں شوہر نے طلاق کے جیسے الفاظ استعمال کیے،  اس طرح کی طلاق واقع ہوگی۔ جو مسئلہ درپیش ہو اس سے متعلق عدالتی کار روائی اور طلاق نامے کے کاغذات کسی مستند دار الافتاء میں پیش کرکے اس جزئیے کا حکم معلوم کیا جاسکتاہے۔

2-طلاقِ معلق کی شرط واقعۃً  پوری ہوگئی تو طلاقِ معلق واقع ہو جائےگی۔شرط کے بارے میں کس کے قول کا اعتبارہوگا؟ یہ شرط کی نوعیت پر منحصر ہے۔  حقیقتِ حال اور متعلقہ جزئیہ بیان کرکے حکم دریافت کرسکتے ہیں۔ اگر طلا قِ معلق  ہوچکی ہے تو عدت گزارنے کے بعد  یہ عورت شادی کرسکتی ہے، اور طلاقِ رجعی کی صورت میں اگر عدت کے دوران شوہر نے رجوع کرلیا تو عورت اسی کی بیوی رہے گی، دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ: اگر شوہر نے خود طلاق نہیں دی تو عدالتی فیصلے کی تفصیل لکھ کر  ویب سائٹ کے اسی فورم پر یا درج ذیل ای میل پر سوال ارسال کریں:

 [email protected]


فتوی نمبر : 144010200528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں