بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع کے بعد عقدِ ثانی کرنا


سوال

میری ہم شیرہ  اپنے خاوند اور سسرالیوں سے بہت تنگ تھی،  بقول اس کے اس کے سسرال میں کوئی بھی اس کا حمایتی اور مددگار نہ تھا،  ایک روز بقول اس کے اس کے ایک دیور نے اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا،  اس کے بعد وہ اپنے میکے آ گئی۔ اس کے سسرالیوں نے نہ تو اس کی کوئی بات سنی اور نہ ہی اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ دو تین دفعہ کی میٹنگز میں الٹا اس کے خاوند نے اس پر الزامات لگائے۔ دل برداشتہ ہو کر وہ میری مدد سے عدالت چلی گئی اور خلع لے لی۔ اس کے بعد اس کا عقد ثانی کرایا گیا۔ وہ اب اپنے نئے سسرال اور خاوند کے ساتھ بہت خوش ہے۔ مگر مجھے دکھ ہے کہ اس کا پہلا گھر بچایا جا سکتا تھا۔ اس کی خلع میں میں خود کو بھی برابر کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ میں اب محض کفِ افسوس ہی مل سکتا ہوں۔ کیا کوئی کفارہ ممکن ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے جس میں فریقین یعنی میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اگرایک فریق بھی خلع پرراضی نہ ہو توشریعت کی نگاہ میں وہ خلع واقع نہیں ہوتی؛ لہٰذا اگر آپ کی ہم شیرہ  نے اپنے شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت کی جانب سے دی جانے والی خلع کی ڈگری  حاصل کی ہے تو شریعت کی نگاہ میں اس سے سے جدائی واقع نہیں ہوئی اور سابقہ نکاح بھی ختم نہیں ہوا، یک طرفہ عدالتی ڈگری کی بنیاد پر نہ ہی عدت لازم تھی اور نہ ہی دوسرا نکاح کرنا جائز تھا۔ اس لیے عدالتی خلع کی بنیاد پر جو دوسرا نکاح کیا ہے شریعت کی نگاہ میں یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، لہذا دوسرے شوہر سے فی الفور علیحدگی لازم ہے، اور اپنے اس فعل پر عورت کو توبہ استغفار کرنا لازم ہے،سابقہ شوہر سے باقاعدہ طلا ق یا خلع کے کاغذات پر دستخط کے ذریعہ  خلع کے حصول کے بعد عدت کی تکمیل کرکے پھر عقد ثانی درست ہوگا۔

البتہ اگر خلع شوہر  کی رضامندی سے حاصل کی گئی تھی، یا وہ راضی تو نہیں تھا لیکن اس نے دستخط وغیرہ کرکے خلع کو نافذ کردیا تھا،  اور پھر عدت گزار کر دوسرا عقد کروایاگیاہے تو اس صورت میں دوسرانکاح درست ہے۔

جہاں تک آپ کی معاونت کا تعلق ہے تو اگر آپ سمجھتے ہیں کہ باہمی نباہ ممکن تھا، لیکن آپ کے اس تعاون کی وجہ سے ہم شیرہ  نے باہمی نباہ کے بجائے کورٹ کا اور جدائی کا راستہ اختیار کیاہے توآپ کا یہ فعل گناہ پر مبنی تھا، اس پر آپ کو توبہ واستغفار کرنا چاہیے، یہی گناہ کا کفارہ ہے، نیز اپنی ہم شیرہ کو شرعی مسئلے سے آگاہ کرکے اس کے مطابق عمل پر آمادہ کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں