بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع،جہیز کاسامان اور عدت کاحکم


سوال

 میری بیٹی کے نکاح کے چھ ماہ بعد رخصتی ہوئی, اور دوسرے دن سے ہی ساس کی طرف سے مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنا شروع کیا گیا, جس کی کچھ وضاحت درج ذیل ہے، یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ میری بیٹی تعلیم یافتہ ہے اور داماد میٹرک پاس ، مگر اس بات کو نہ ہم نے اور نہ ہی بیٹی نےکبھی غلط تصور کیا؛  کیوں کہ نکاح سے قبل ہم نے صرف اور صرف یہ دیکھا کہ داماد تبلیغی ہے، دین کے ماحول سے جڑا ہے، اس لیے نکاح ہوا، مگر افسوس کہ ان کے قول اور فعل میں تضاد ہ،ے اور ہم نے چہرے سے دھوکا کھایا،  اور ایک بات یہ بھی کہ اک بہو کے ساتھ پہلے بھی اس طرح کے ظلم ڈھائے کہ اس نے بھی ایک سال میں ہی علیحدگی /طلاق پنچایت کے ذریعہ حاصل کرلی، اور دوسری بیوی کے ساتھ بھی یہی سب کچھ شروع ہوا، مگر لڑکی کے تیز ہونے کی وجہ سے جھگڑوں میں شدت اور ساس کے سر پھاڑنے کے بعد اسے علیحدہ مکان میں منتقل کر دیا گیا، سات ماہ کے عرصے میں سے صرف چند باتوں کا ذکر کروں گا، شروع ہی سے رات دیر تک ساس کا اپنے پاس بٹھانا، پھر کمرے میں بھیج کر کسی نہ کسی بہانے سے بہو کو باہر بلانا، اور جان بوجھ کر بیٹے سے دور رکھنا اور نیند خراب کرنا، خودکا دیر تک سونا اور بہو کی نیند اس وقت بھی ڈسٹرب کرنا، کھانا اپنی مرضی سے پکوانا، پھر اس میں بھی چک چک، جہاں فارغ ہوئی بہو اپنے پاس بٹھانا اور غیبت، دوسروں کی برائیاں یہ جانتے ہوئے کہ بہو اس بات سے چڑتی ہے، اور کئی بار کہنے پر نماز کے لیے جانے دینا، اور جب بیٹے کے آنے کا وقت ہو جائے پھر بہو کو اپنے کمرے میں بھیجنا کہ آرام کرلے اور بیٹے کو غلط رخ دکھانا کہ دروازہ بندکرکے پڑی ہے وغیرہ، اولاد ہو اس کے لیے غلط اور غیر شرعی طریقے جیسے نجومی کے پاس دھوکے سے لے جانا، مزاروں سے کچھ لاکے زبردستی کھلانا وغیرہ، والدین کے گھر آنے پر بہانے، بیٹے کے ساتھ جانے پربہانے، یہاں تک کہ بیٹے کے عمرہ کے ارادے پر بھی اعتراض، خیر اس سے بھی بڑھ کر بہت کچھ ناقابلِ بیان ماں کی زیادتیاں، اور دباؤ کا علم ہوتے ہوئے بھی داماد نے میری بیٹی کو ہی دباؤ میں رکھا کہ یہ سب برداشت کرو، ماں کو کچھ نہیں کہوں گا، یہی نہیں بلکہ بسا اوقات سب جانتے ہوئے بھی غلط باتوں پر ماں کا ہی ساتھ دیا، اور اتنے دباؤ میں ہونے کے باوجود سات ماہ تک بیٹی نے ہم سے تذکرہ ہی نہ کیا، اس آس اور امید پر کہ کل اچھا ہو جائے گا، مگر افسوس کے ساتھ بتا رہاہوں کہ اس قدر ذہنی دباؤ اور اذیت میں بیٹی کو سسرال والوں نہ رکھا کہ علم اور تعلیم کے ہونے کہ باوجود ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں میری بیٹی نے اللہ کی نافرمانی کی اور نیند کی دوائی کھا کر اپنی جان دینے کو تیار ہوگئی، اللہ نے اپنا کرم کیا اور وقت پر پتا چل گیا اور یوں اللہ نے دوسری زندگی بخشی، دو ہفتے والدین کے گھر رہنے کے بعد عید کے تیسرے دن صلح ہونے پر دوبارہ سسرال چلی گئی، مگر افسوس پہلے سے بھی زیادہ شوہر ساس اور جیٹھ جیٹھانی کی طرف سے بھی معاملات خراب کیے گئے، اور صلح میں طے شدہ پر عمل نہ ہوا، اور تین ہفتے بعد شوہر نے خود والدین کے گھر بھیجا اور مختلف جواز اور الزامات لگاکر رابطہ نہ رکھا، اور جب ہماری طرف سے یہ معلوم ہوا کہ ہم رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو ایک ماہ بعد ساس بیٹا اور دیگر خواتین ہمارے گھر آئے اور ان کی باتیں نہ ماننے پر ساس نے کہرام مچایا اور محلے بھر میں شور شرابا کیا اور مزید الزامات لگائے۔

بہرحال اب آپ سے گزارش ہے کہ خلع کی شرعی حیثیت سے آگاہ کیجیے ، لڑکی علیحدگی چاہتی ہے خلع لے سکتی ہے؟ کیا کورٹ سے رجوع کریں؟ اور لڑکے کے حاضر نہ ہونے پرعدالت سے حاصل شدہ خلع کی شرع حیثیت کیا ہوگی؟ لڑکی کے خلع حاصل کرنے کے بعد جہیز اور زیور وغیرہ حاصل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اور خلع کے بعد عدت کا حکم کیا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس میں جانبین کی رضامندی ضروری ہے، اور شوہرکی رضامندی کے بغیر دیا جانے والا خلع شرعاًنافذ نہیں ہوتا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عدالت اپنے مروجہ طریقہ کار کے مطابق شوہر کی رضامندی کے بغیر  خلع دےگی تو یہ نافذ نہیں ہوگا؛  اس لیے بجائے عدالتی کاروائی کرنے کے آپس میں بیٹھ کر بات چیت کی جائے، خاندان یا محلہ کے دیگر معزز اور بڑے لوگوں کو درمیان میں ڈالا جائے، یا محلہ کی یونین کونسل اور تھانے کا تعاون حاصل کرکے معاملات حل کیےجائیں۔

ان کوششوں کے نتیجے میں نباہ کی صورت بن جائے تو بہت خوب! اوراگرطلاق یاخلع ہوجائے تو تین ماہواریاں عدت گزارنا ہوگی۔ اور جہیز کا سامان اور والدین کی طرف سے ملنے والا زیور  چوں کہ عورت کی ملکیت ہے؛ لہذا علیحدگی کی صورت میں اسی کو ملے گا۔ خلع یا مال کے بدلے طلاق کا معاملہ ہونے کی صورت میں جو طے ہو وہ دینا ہوگا۔ فیصلے کے وقت سامان کی واپسی کا طریقہ کار بھی طے کرلیاجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں