بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع


سوال

ہم ایک مسلمان پاکستانی فیملی ہیں اور امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔ تقریباً اڑھائی سال پہلے ہم نے اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں اپنے بھائی کے بیٹے سے کی۔ شادی کے دس دن بعد ہماری بیٹی واپس امریکا  چلی گئی پھر تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد لڑکے کو امریکا  کا ویزا ملا اور وہ بھی امریکا  چلا گیا۔ وہاں پر خاوند بیوی تقریباً ایک سال تک رہے۔ شادی کے بعد سے اس پورے عرصے کے دوران ان کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہوسکی۔ لڑکے نے ہماری بیٹی کو بیوی کے طور پر کبھی قبول ہی نہیں کیا حتیٰ کہ ایک دن بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کیے۔ بارہا نوبت لڑائی جھگڑے تک آ پہنچی۔ خاندان کے بڑوں نے لڑکے کو سمجھایا، اس نے معافی بھی مانگی، لیکن بعد میں بھی صورتِ حال جوں کی توں رہی۔

رواں سال کے شروع میں لڑکا لڑکی سمیت ہم سب پاکستان آئے، یہاں بھی صورتِ حال بدستور برقرار رہی، بلکہ پہلے سے بھی ابتر ہوگئی۔ یہ بات بھی ہمارے علم میں آئی کہ لڑکے نے صرف امریکا جانے کے لالچ میں یہ شادی کی۔ ہم نے خود لڑکے کے والد کو لڑکے سے یہ کہتے سنا کہ پہلے اپنے امریکا کے کاغذ پکے ہو لینے دیتے، پھر یہ سب کرتے۔ یہ سب کچھ جان لینے کے بعد اور یہ سوچنے کے بعد کہ کاغذات بننے کے بعد بھی لڑکے نے ہماری بیٹی کو طلاق ہی دینی ہے، ہم نے خود طلاق لینے کا فیصلہ کیا۔ لڑکے اور اس کے والدین سے بات کی اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب کی بار ان لوگوں نے بھی مصالحت نہیں کی، لیکن طلاق بھی نہیں دی۔ کافی انتظار کے بعد ہم نے عدالت کے ذریعے انہیں نوٹس بھجوایا۔ نوٹس ملنے پر بھی انہوں نے طلاق دینے کے بجائے عدالت میں کیس لڑنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت میں متعدد پیشیاں ہوئیں، لیکن عدالت کے طلب کرنے پر ایک بار بھی لڑکا یا اس کے خاندان میں سے کوئی بھی پیش نہ ہوا اور اپنے وکیل یا اس کے منشی کے ذریعے پیشیاں بھگتیں۔ بالآخر عدالت نے ان کو آخری موقع دیا کہ لڑکا پیش ہو، پہلے دونوں میاں بیوی کے درمیان مصالحت کی کوشش کروائی جائے گی، اگر مصالحت نہیں ہوتی اور لڑکا طلاق بھی نہیں دیتا تو عدالت تنسیخِ نکاح کا حکم جاری کر دے گی۔ یہ بات لڑکے، اس کے خاندان، وکیل، سب کے علم میں تھی، لیکن اس کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے۔ لڑکے نے امریکا کے ویزے کے لیے بھی درخواست دے رکھی ہے، شاید وہ اس انتظار میں تھا کہ ویزہ ملنے تک اس کیس کو لٹکائے رکھے۔ بہرحال، جب لڑکا یا اس کے خاندان میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا تو عدالت نے نکاح کی منسوخی کا فیصلہ سنا دیا۔

ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس فیصلے سے شرعاً طلاق واقع ہوگئی ہے؟ بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ چوں کہ لڑکا عدالت میں پیش نہیں ہوا اور فیصلے پر اس کے دستخط نہیں ہیں؛ لہٰذا طلاق نہیں ہوئی، جب کہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ عدالت نے لڑکے کو بارہا طلب کرنے کے بعد اس کی عدمِ پیشی پر اپنا تنسیخِ نکاح کا حق استعمال کرتے ہوئے اس نکاح کو منسوخ کیا، ورنہ تو لڑکا ہماری بیٹی کو ساری زندگی یوں ہی لٹکائے رکھتا، اور جب لڑکا لڑکی ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتے، ان کے درمیاں خاوند بیوی والا کوئی تعلق ہی نہیں اور لڑکا صرف ہمیں اذیت دینے کے لیے طلاق نہیں دے رہا تو پھر اس صورت میں کیا ہوسکتا ہے؟ براہِ کرم راہ نمائی فرما دیں!

جواب

جہاں شریعتِ مطہرہ نے طلاق جیسے بڑے فیصلے کا مالک اور مختار شوہر کو بنایا ہے، وہیں شوہر پر بیوی کے حقوق کی ذمہ داری بھی عائد کی ہے۔ عورت کے فطرتاً کمزور ہونے اور شرعاً کلی طور پر مختار نہ ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے کی اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہے! چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے ما تحت کے بارے میں سوال کیا جائے گا!

بہر حال صورتِ  مسئولہ میں عدالتی فیصلے کو صریح طور پر تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ  تنسیخِ  نکاح کے لیے  شرعی طور پر چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود ہو یا متعنت (ظالم)  ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو  اور  ظلم کرتا ہو۔ پھر عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔  پھر عدالت فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کرے،  جب کہ عورت نے ایسا نہیں کیا؛  لہذا اسے شرعاً تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔بنابرایں نکاح برقرار ہے۔

خاندان کے با اثر لوگوں کا تعاون حاصل کرکے کسی طرح لڑکے کو طلاق یا خلع پر راضی کریں یا عدالت سے اس طریقے پر تنسیخِ نکاح کروائیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں