بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک روایت کی تحقیق: عجوہ کھجور کھجوروں کی سردار کیسے بنی؟


سوال

ایک واقعہ نقل کررہی ہوں، اس کی تصحیح فرمائیں!

عجوہ کھجور کھجوروں کی سردار کیسے بنی؟

ایک حبشی جس کی ناک موٹی، آنکھیں چھوٹی ، رنگت سیاہ، چلتا تو لنگڑاہٹ نمایاں نظر آتی تھی بولتا تو زبان میں لکنت غلام ابن غلام۔ ایک باغ کے جھاڑ جھنکار سے کھجوریں چننے میں مصروف تھا، یہ کھجوریں نرم نہ تھیں اور ذائقہ میں بھی باقی کھجوروں سے مختلف، جب کہ رنگ گہرا اور دانہ بہت چھوٹا سا، جھولی میں آئی کھجوریں اس باغ کا آخری پھل تھا، وہ شہر میں انہیں فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ کچھ پیسے جمع ہوسکیں، مگر کوئی ان کھجوروں کا طلب گار نہ تھا،  اسی اثنا میں ایک آواز آئی ’’اے حبشی  یہ کھجور تو تجھ جیسی کالی اور خشک ہے‘‘۔ دل کے آبگینے پر اک ٹھیس لگی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔

سیدنا بلال  جو کہ ایک حبشی غلام تھے، کھجوریں جھولی میں ہی سمیٹ کر بیٹھ گئے، ایسے میں وہاں سے اس کا گزر ہوا جو ٹوٹے دلوں کا سہارا ہے، جس نے مسکینوں کو عزت بخشی وہ جس کا نام غم زدہ دلوں کی تسکین ہے،  جی ہاں وہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو دو جہانوں کا سردار ہے، آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ سے رونے کا سبب پوچھا تو سیدنا بلال ؓنے جھولی کھول کر سب ماجرہ کہہ سنایا، رحمت اللعالمین ﷺ نے بازار کی جانب رخِ انور موڑا اور آواز لگائی ’’لوگو یہ کھجور ’’عجوہ‘‘ ہے، یہ دل کے مرض کے لیے شفا ہے، یہ فالج کے لیے شفا ہے، یہ ستر امراض کے لیے شفا ہے، اور لوگو! یہ کھجوروں کی سردار ہے، پھر یہ کہہ کر بس نہیں کیا، بلکہ فرمایا:  جو اسے کھا لے اسے جادو سے امان ہے‘‘۔  منظر بدل گیا وہ بلال رضی اللہ عنہ جس کے پاس چند لمحے پہلے تک جھاڑ جھنکار تھا اور پریشان بیٹھا تھا اب رحمت اللعالمین، نبی آخر الزمان، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے غنی کر دیا۔

پھر تاریخ بتاتی ہے، راوی لکھتے ہیں کہ لوگ بلال کی منتیں کرتےاور پیچھے بھاگتے کہ ہمیں اور عجوہ کھجور دو اور بلال کسی مچلے ہوئے بچے کی مانند آگے آگے بھاگتے،  تاریخ گواہ ہے کہ وہ جسے کبھی دنیا جھاڑ جھنکار سمجھ رہی تھی بلال رضی اللہ عنہ کی جھولی میں آ کر اورمصطفٰے کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانِ مبارکہ کا صدقہ آج بھی کھجوروں کی سردار ہے۔

جواب

تلاشِ بسیار کے باوجود  کسی بھی معتبر کتاب میں مذکورہ واقعہ ہمیں نہیں مل سکا، یہ واقعہ "بے اصل " ہے، جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صرف ایسا کلام اورواقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو۔

البتہ عجوہ  کی فضیلت کے حوالہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درج ذیل روایت ثابت ہیں۔

بخاری شریف : 

"حدثنا جمعة بن عبد الله حدثنا مروان أخبرنا هاشم بن هاشم أخبرنا عامر بن سعد عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من تصبح كل يوم سبع تمرات عجوة لم يضره في ذلك اليوم سم ولا سحر". (صحیح البخاري، باب الدواء بالعجوة :۵/۲۱۷۶، دارابن الکثیر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر روز صبح سات دانے عجوہ کھجور کے کھائے اس دن اسے زہر نقصان پہنچائے گا نہ ہی جادو۔

مسلم شریف  میں ہے:

"وحدثنا يحيى بن يحيى ويحيى بن أيوب وبن حجر قال يحيى بن يحيى: أخبرنا وقال الآخران: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر عن شريك وهو بن أبي نمر عن عبد الله بن أبي عتيق عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن في عجوة العالية شفاء أو إنها ترياق أول البكرة". (صحیح مسلم:۱۴/۲۳۲،ط: دارالمعرفہ)

یعنی مدینہ کے بالائی علاقے کی عجوہ میں شفا ہے، یا یہ فرمایا کہ صبح کے وقت اس کا استعمال تریاق ہے۔

ترمذی شریف میں ہے :

 "حدثنا أبو عبيدة أحمد بن عبد الله الهمداني وهو ابن أبي السفر و محمود بن غيلان قالا حدثنا سعيد بن عامر عن محمد بن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: العجوة من الجنة، وفيها شفاء من السم، والكمأة من المن وماؤها شفاء للعين". (سنن الترمذی:۴/۱۶۳،ط: دارالحدیث )

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عجوہ جنت کا پھل ہے، اور اس میں زہر سے شفا ہے۔ اور کھنبی بنی اسرائیل کے ’’من‘‘ کی طرح ہے، اور اس میں آنکھوں کی شفا ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں