بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عام موزوں پر مسح کرنے والے امام کی اقتدا میں نماز کا حکم


سوال

ایک عالم نے یہ مسئلہ لکھا ہے۔ کیا یہ مسئلہ صحیح ہے؟

سوال کیا گیا کہ :خلیجی ممالک میں مساجد کے بعض ائمہ کرام عام موزوں پر مسح کرکے نماز کی امامت کرتے ہیں، تو ہم لوگ کیا کریں؟

جواب عرض ہے کہ اگر ہمارے پاس کوئی متبادل موجود ہے، مثلاً: ہمارے گھر کے قریب دو مساجد ہیں، ایک مسجد کے امام کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ وہ عام موزوں پر مسح کرکے ہی نماز پڑھاتے ہیں، جب کہ دوسری مسجد کے امام موزے ہی نہیں پہنتے ہیں یا جراب پر مسح نہیں کرتے ہیں تو دوسری مسجد میں نماز پڑھنے کی کوشش کریں، لیکن اگر ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے تو ہم نماز جماعت کے ساتھ ہی ادا کریں، ان شاء اللہ نماز ادا ہوجائے گی؛ کیوں کہ عام موزوں پر مسح کے مجوزین بھی آخر کار اہل السنت والجماعت سے ہیں، اگرچہ دنیا کے اکثر علماء کرام کی رائے عام موزوں پر مسح کے عدم جواز کی ہے۔ ورنہ ایک فتنہ برپا ہوجائے گا اور فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ امت مسلمہ کے درمیان یہ اختلاف نزاع میں تبدیل ہوجائے گا، اور جھگڑا کرنے سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر جسم کے کسی حصہ سے خون نکل کر بہہ جانے پر وضو کے ٹوٹنے کے متعلق ہمارے اور دیگر علماء کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارے علماء کرام کا موقف ہے کہ جسم کے کسی حصہ سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح پے درپے وضو کرنا کہ ایک عضو خشک نہ ہونے پائے کہ دوسرا دھویا جائے (جس کو عربی میں موالاۃ کہتے ہیں) امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک فرض ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے ہے کہ وہ سنت ہے۔

جواب

یہ مسئلہ درست نہیں ۔ اس لیے کہ امت کے تمام مستند فقہاء و مجتہدین کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ باریک موزے جس سے پانی چھن جاتا ہو، یا وہ کسی چیز سے باندھے بغیر پنڈلی پر کھڑے نہ رہتے ہوں ، یا ان میں تین میل مسلسل چلنا ممکن نہ ہو ، ان پر مسح جائز نہیں ہے ۔ چوںکہ ہمارے زمانے میں جو سوتی ، اونی ، نائیلون کے موزے رائج ہیں وہ باریک ہوتے ہیں اور ان میں مذکورہ اوصاف نہیں پائے جاتے ؛ اس لیے ان پر مسح کسی حال میں جائز نہیں ، اور جو شخص ایسا کرے گا تو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ بلکہ کسی بھی مجتہد کے مسلک میں اس کا وضو صحیح نہیں ہوگا۔جب امام کا وضو صحیح نہیں ہوگا تو مقتدیوں کی نماز بھی صحیح نہیں  ہوگی۔ اور ایسے امام کی اقتدا ناجائز ہے۔ اس لیے ایسے امام کی اقتدا میں نماز کا اہتمام کیا جائے جو مروجہ اونی یا نائلون کی جرابوں پر مسح نہ کرتاہو۔ اور قریب میں اگرایسی مسجد نہیں ہے اور نہ کسی دوسری جگہ باجماعت نماز ادا کرنے کی کوئی صورت ہے تو  ایسے امام کی اقتدا کے بجائے تنہا ہی نماز ادا کرے۔ البتہ جب تک کسی امام کے بارے میں باوثوق ذرائع سے معلوم نہ ہوکہ وہ اونی یا سوتی جرابوں پر مسح کرتاہے صرف شک کی بنا پر جماعت ترک نہ کی جائے۔

باقی رہی ان عالم صاحب نے جو دومثالیں دی ہیں  کہ :’’(۱)  جسم کے کسی حصہ سے خون نکل کر بہہ جانے پر وضو کے ٹوٹنے کے متعلق ہمارے اور دیگر علماء کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود ہم ان کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمارے علماء کرام کا موقف ہے کہ جسم کے کسی حصہ سے خون نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔( ۲)اسی طرح پے درپے وضو کرنا کہ ایک عضو خشک نہ ہونے پائے کہ دوسرا دھویا جائے (جس کو عربی میں موالاۃ کہتے ہیں) امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک فرض ہے، جب کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے ہے کہ وہ سنت ہے‘‘۔

      ان میں سے پہلی صورت کے متعلق عرض ہے کہ: ایسی صورت مٰیں بھی حنفی مقتدی کا ایسے امام کی اقتدا کرنا درست نہیں جو خون نکلنے کو ناقض وضو نہ سمجھتاہو؛ اس لیے کہ فقہاء نے بہت صراحت کے  ساتھ کسی حنفی کے لیے غیر مسلک والے امام کی اقتدا درست ہونے کی شرط لکھی ہے کہ : اما الاقتداء بالمخالف فی الفروغ کالشافعی فیجوز مالم یعلم منہ مایفسد الصلاۃ علی اعتقاد المقتدی علیہ الاجماع (غنیۃ المستملی شرح منیۃ المستملی  ،  فصل فی الامامۃ،    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص ۵۱۶) یعنی حنفی جب دوسرے مذہب والے کی اقتدا کرے تو اس کی اقتدا ایسی صورت میں جائز ہے کہ  امام کسی ایسے امر کا مرتکب نہ ہو جو ہمارے مذہب میں ناقض طہارت یا مفسد نماز ہے، جیسےقلیل نجس پانی یاماء مستعمل سے طہارت یا چوتھائی سر سے کم کا مسح یا خون، پیپ وقَے وغیرہ نجاسات جو  غیر سبیلین سے خارج ہوں ،  ان کے خروج پر وضو نہ کرنا، یا قدر درھم سے زائد منی آلودہ کپڑے سے نماز پڑھنا یا کوئی فرض نماز ایک بار پڑھ کر پھر اُسی نماز میں امام ہوجانا تو ان تمام صورتوں میں حنفی کے لیے  سرے سے اُس امام کی اقتدا جائز ہی نہیں اور اس کے پیچھے پڑھی گئی  نماز باطل ہے۔

عام موزوں پر مسح کرنے والے امام کی طہارت بھی ہمارے یہاں درست نہیں؛ اس لیے اس کی اقتداٗ بھی درست نہیں۔

اور دوسرا مسئلہ جس میں امام وضو میں موالاۃ کی فرضیت کا قائل ہے، مقتدی سنیت کا تو اس صورت مٰیں اقتدا درست ہے اس لیے کہ یہ امر نہ تو ناقض طہارت ہے نہ مفسد نماز۔فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 143802200064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں