بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عالمہ لڑکی شادی کے بعد اپنے علم کی تبلیغ کس طرح کرے؟


سوال

میری بہن نے قرآن شریف بھی حفظ کیا ہے اور عالمہ  کا کورس بھی کیا ہے، اس کی دبئی میں شادی ہو گئی ہے اور ماشاءاللہ اس کے 2 بچے بھی ہیں، لہذا ابھی وہ 2 چیزوں کے لیے بہت پریشان ہے، نمبر  1 یہ کہ وہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنا علم کسی دوسرے بندے کو نہیں منتقل کرسکتی ہے۔  نمبر 2 یہ کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس بارے میں مجھ سے قیامت کے دن پوچھا جاۓ گا؛ لہذا آپ اس بارے میں راہ نمائی فرمادیں؟

جواب

آپ کی ہم شیرہ  کا جذبہ قابلِ قدر و تحسین ہے، لیکن ملحوظ رہے کہ علم دین کی اشاعت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ باقاعدہ درس گاہ میں بیٹھ کر شاگردوں کو پڑھایا جائے، اور مدرسہ میں معلمہ کی خدمات انجام دی جائیں، ایک عورت کے پاس دینی تعلیم و تربیت کے لیے بہت وسیع میدان موجود ہے، ماں کی گود بچوں کے لیے پہلا مدرسہ ہوتی ہے، اپنے بچوں کی صحیح تربیت، ان کے کردار، اخلاق، اطوار کی اصلاح،  ان کو دینِ اسلام سے متعلق بنیادی آگاہی، یہ عورت کے لیے اپنا علم دوسروں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ،  بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔

اس کے ساتھ  ازدواجی زندگی میں شریعت پر عمل، شوہر کی فرماں برداری اور خدمت کو شعار بنالے،  اپنی سہیلیوں، ارد گرد کی خواتین اور پڑوس کی بچیوں کی اسلامی تربیت اور تعلیم کی کوشش کرتی رہے، اگر قریب میں اپنے ہم وطن اور ہم زبان لوگ آباد ہیں تو اپنے گھر میں ہی چھوٹے بچوں اور بچیوں کے لیے قرآنِ پاک پڑھانے اور بنیادی دینی مسائل کی تعلیم اور  تربیت کا نظم بنالے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ”میری طرف سے دوسروں کو پہنچاؤ خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو“۔  اور  ”تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے“۔  ان جیسے کئی فضائل اور بشارتوں کو سمیٹا جاسکتا ہے، اور اس سے آخرت کی سرخ روئی بھی ان شاء اللہ نصیب ہوگی۔

واضح رہے کہ بنیادی اور ضروری علمِ دین (یعنی جس وقت جو حکمِ الٰہی متوجہ ہو اس کا علم) حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرضِ عین ہے، اسی طرح اس علم کے مقتضیٰ پر عمل کرنا بھی لازم ہے، اور بوقتِ ضرورت موقع و محل دیکھ کر اپنی استطاعت کے مطابق خیر و بھلائی کی تلقین کرنا اور برائیوں سے دوسروں کو روکنا اور اسلامی تربیت اور اصلاح کی کوشش کرتے رہنا بھی ضروری ہے، تاہم باقاعدہ طور پر نصاب اور نظم کی شکل میں علمِ دین کی تدریس اور تعلیم ہر  مرد و عورت کے ذمے فرض نہیں ہے۔  علوم کی تفصیلات،  قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل،  اور ان سے نکالے ہوئے اَحکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ فرضِ کفایہ ہے، اور ان کی تدریس بھی فرض کفایہ ہے۔

غرض یہ ہے کہ آپ کی بہن نے قرآنِ مجید  کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علمِ دین بھی حاصل کیا ہے  تو  جتنی مقدار ان پر علم حاصل کرنا فرض تھی، وہ تو انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اس کے علاوہ علم حاصل کرنے کے دیگر مقاصد میں سے ایک اس پر عمل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا بھی ہے، لہذا آپ کی بہن کو چاہیے کہ جو علم انہوں نے حاصل کیا ہے اس پر عمل کریں، اور زندگی کے مختلف پہلو  مثلاً شوہر کی خدمت، اولاد کی پرورش، خانگی امور اور نجی نسوانی مسائل میں شریعتِ مطہرہ کے احکامات کی پاس داری کریں، اور اپنے دائرے میں جہاں تک ہوسکے دین کی بات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتی رہیں۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں