بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاریت میں وراثت کا حکم


سوال

میرے بڑے بھائی نے والدہ کو کچھ زیور بنوا کر دیا تھاجو والدہ استعمال کرتی رہیں۔ جب والدہ کا انتقال ہوا تو میں نے وہ زیور بھائی کو واپس کر دیا۔ بھائی نے وہ زیور واپس لے لیا۔اب کچھ بہن بھائیوں کا کہنا ہے کہ اس زیور میں دوسرے بہن بھا ئیوں کا بھی حصہ ہے جب کہ بھائی کا کہنا ہے کہ میں نے زیور والدہ کہ استعمال کے لیے دیا تھا، ان کے انتقال کے بعد میں نے واپس لے لیا۔ اس زیور میں سارا پیسہ بھائی کا تھا، دیگر بہن بھائیوں میں سے کسی کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا۔اس صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟

جواب

اس صورت میں  دیگرورثاء والدہ کو  ملکیت میں دینے کے مدعی ہیں، اس لیے کہ ہمارے ہاں عرف میں زیور دونوں ہی طرح سے دیا جاتا ہے تو  جو  اعلیٰ حیثیت کو ثابت کرنا چاہتا ہے وہ مدعی ہے۔

اگر ان ورثہ کے پاس  اس بات کی کوئی گواہی  یا دلیل  موجود ہو  تو وہ پیش کرکے اپنی  بات ثابت کرسکتے ہیں ، اور اگر ایسا نہ ہو تو  زیور دینے والا بھائی قسم کھا کر اپنی بات منوا سکتا ہے۔ پھر  اس میں دیگر بہن بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس لیے اس میں  وراثت جاری نہ ہوگی۔

’’ترجح بینة الخارج أیضاً علی بینة ذي الید في دعاوي الملک المقید بسبب قابل للتکرار … إذا ادعی واحد علی آخر دکاناً في یده بأنه ملکه اشتراه من زید، و مع هذا وضع هذا الرجل یده علیه بغیر حق، و قال ذوالید: إني اشتریته من بکر أو ورثته من والدي و لذلک وضعت یدي علیه ترجح بینة الخارج و تسمع‘‘.(شرح المجلة ۱۱۱۸،المادة۱۷۵۸)

’’قال: وما سوی ذلک من الحقوق یقبل فیها شهادة رجلین أو رجل وامرأتین سواء کان الحق مالًا أو غیر مال مثل النکاح والطلاق … والهبة والإقرار والإبراء‘‘. (فتح القدیر ۶:۴۵۱ کتاب الشهادة)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں