بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طویل عرصہ تک بیوی سے تعلق قائم نہ کرنا اور نہ ہی اس کو نکاح سے آزاد کرنا


سوال

 زید اپنی بیوی سے 8 سالوں سے ازدواجی تعلقات ختم کر چکا ہے، لیکن بیوی کو طلاق نہیں دیا ہے اور نہ اس سے صلح کا ارادہ ہے،  اس کا نفقہ بھی نہیں اٹھاتا ہے، ایسی صورت میں نکاح پر کچھ اثر تو نہیں پڑتا ہے۔ اور زید یہ بھی کہتا ہے کہ اس سے میرا گزارا نہیں ہوتا، طلاق اس لیے نہیں دے سکتا کہ میری بہن بدل میں ہے،  پھر اس کو بھی طلاق دیا جائے گا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں زید کے اپنی بیوی سے 8 سالوں سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ زید کا یہ عمل کہ 8 سال تک بیوی سے نہ تعلق قائم کرنا  نہ نفقہ دینا  اور نہ ہی طلاق دینا، شرعاً جائز نہیں ہے، بیوی کے بہت سے حقوق شوہر پر لازم ہیں، شوہر کا بیوی کو  نکاح کے بندھن میں رکھ کر  اس کو اذیت دینا انتہائی قبیح عمل ہے، لہذا مذکورہ شخص  کو چاہیے کہ وہ اگر اپنی بیوی کو نکاح میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کے تمام حقوق ادا کرے، ورنہ ایک طلاق دے کر اپنے نکاح سے علیحدہ کردے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء 129]
ترجمہ : اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو، گو تمہارا جتنا ہی جی چاہے، تو تم بالکل تو ایک ہی طرف نہ ڈھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو ( یعنی نہ توا س کے حقوق ادا کیے جائیں کہ خاوند والی سمجھی جائے اور نہ اس کو طلاق دی جائے کہ بےخاوند والی کہی جائے۔) اور اگر اصلاح کرلو اور احتیاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت والے بڑے رحمت والے ہیں۔(بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

’’۔۔۔ اور اے مردو!  اگر تم عورتوں کے ساتھ سلوک اور احسان کرو اور ان کی حق تلفی سے بچو تو  بے شک جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے، تمہیں اس کی جزا دے گا اور ہم تم کو بتلائے دیتے ہیں کہ تم متعدد بیبیوں کے درمیان پوری برابر ہرگز نہیں کرسکتے گو تم کتنا ہی چاہو یعنی جس شخص کی کئی بیبیاں ہوں تو یہ اس کے قدرت اور اختیار سے باہر ہے کہ محبت اور میلانِ قلبی میں سب کو برابر رکھے؛ کیوں کہ جب صورت اور سیرت میں سب برابر نہیں تو سب کے ساتھ محبت کیوں کر ہوسکتی ہے، جب متعدد عورتوں میں پوری برابری نہیں کرسکتے تو ایسا بھی نہ کرو کہ بالکل اور ہمہ تن ایک ہی کی طرف جھک جاؤ اور دوسری بی بی کو معلق چھوڑدو، نہ بیوہ ہی ہے اور نہ خاوند ہی والی، نہ نکاح کرسکتی ہے  ا ورنہ شوہر سے فائدہ اٹھاسکتی ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر محبت اور میلانِ قلبی میں مساوات نہیں کرسکتے تو یہ بھی نہ کرو کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ میں بھی ایک ہی طرف کو جھک جاؤ، یہ تو تمہاری قدرت میں ہے کہ تقسیمِ نوبت اور نفقہ وغیرہ میں سب کے ساتھ یک ساں سلوک رکھو،  نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجودیکہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق تھیں، مگر پھر بھی تمام اَزواج کے حقوق برابر ادا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں اختیار کے موافق ہر ایک کا حق برابر ادا کرتا ہوں، مگر جو امر میرے اختیار میں نہیں یعنی قلبی محبت اس میں تو مجھ کو معذور  رکھ۔ اور اگر تم اصلاح کرلو یعنی گزشتہ میں جو بےانصافی کرچکے ہو اس کی تلافی کرلو اور آئندہ کے لیے عورت کے حق میں ناانصافی سے بچتے رہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے تمہاری گزشتہ کوتاہیوں اور خطاؤں کو معاف کردے گا اور اگر صلح اور موافقت کی کوئی صورت نہ ہوسکے اور میاں بیوی طلاق یا خلع کے ذریعہ ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اللہ ہر ایک کو کفایت کرے گا اپنی وسعت سے، یعنی خدا ہر ایک کا کارساز ہے مرد کو دوسری عورت مل جائے گی اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا اور روزی میں ایک دوسرے کا محتاج نہ رہے گا، اور ہے اللہ وسعت والا اور حکمت والا، اس کی توانگری اور رحمت بہت وسیع ہے اور اس کے تمام اَحکام حکمت پر مبنی ہیں،  اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اس کی ملک ہے جس کو جتنا چاہے دے، یہ اس کے واسع ہونے کی دلیل ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا وسعت ہوسکتی ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی کل چیزوں کا مالک ہے‘‘۔(معارف القرآن) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں