بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلوعِ آفتاب کے دس منٹ بعد عید کی نماز ادا کرنے کا حکم


سوال

طلوعِ آفتاب کے دس منٹ بعد عید کی نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟ یعنی گیارہویں منٹ پر جماعت کھڑی کردی جائے؟

جواب

نمازِ عید کا وقت طلوعِ آفتاب کے بعد  اس وقت ہوتاہے جب کہ سورج اچھی طرح روشن  ہو جائے۔اب سورج کتنا روشن ہو تو نماز ادا کی جائے گی؟ اس کی مقدار بیان کرتے ہوئے بعض احادیث میں "قدر رمح أو رمحین" یعنی طلوع کے بعد سورج کے ایک یا دو نیزے بلند ہونے کو معیار قرار دیا ہے، از روئے فتویٰ تو طلوعِ آفتاب کے کم از کم  دس منٹ بعد ہی نماز  ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ  احتیاط اس میں ہے کہ پندرہ یا بیس منٹ تاخیر کی جائے۔ لیکن اگر دس منٹ کے بعد بھی نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائے گی۔دہرانا ضروری نہیں۔

"ووقت الصلاۃ من الارتفاع إلی الزوال…، فإن اشتغل الإمام فلم یصل أو ترک عمداً حتی زالت فقد حل الذبح بغیر صلاۃ فی الأیام کلہا؛ لأنہ بالزوال فات وقت الصلاۃ، وإنما یخرج الإمام فی الیوم الثانی والثالث علی وجہ القضاء۔ (ردالمحتار، بیروت ۹؍۳۸۶،)

ردالمحتار:

''وما دامت العین لا تحار فیها فهي في حکم الشروق، کما تقدم في الغروب أنه الأصح، کما في البحر. أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوه عن الأصل للإمام محمد من أنه ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فهی في حکم الطلوع ؛ لأن أصحاب المتون مشوا علیه في صلاة العید حیث جعلوا أوّل وقتها من الإرتفاع ولذا جزم به هنا في الفیض ونور الإیضاح''.(ردالمحتار على الدر المختار، کتاب الصلاة، مطلب یشترط العلم بدخول الوقت،۱/۳۷۱)

قال الطیبي:

'' أي ثم صلی بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتی یخرج وقت الکراهة، وهذه الصلاة تسمی صلاة الإشراق''. (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۲؍۲۴)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں