بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے وسوسہ آنے سے طلاق کا حکم


سوال

مجھے کچھ مہینوں سے طلاق کے متعلق خیال آرہے ہیں کہ میں اپنی زوجہ کو طلاق دے رہا ہوں جب کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ کبھی خیالات کا زور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میرا خود  پر قابو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کے میرے منہ سے اس طرح کے کوئی الفاظ نہیں نکلے۔ پر مجھے ڈر ہے اگر خدانخواستہ طلاق کے الفاظ میرے منہ سے نکل جاتے ہیں جب کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تو کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

محض وسوسہ یاسوچ یاخیالات آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،جب تک کہ آدمی  زبانی یا تحریری طورپر اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دے۔باقی اگر ہوش وحواس میں  زبان سے طلاق  کے الفاظ ادا کردیے تو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔لہذا آپ وسوسہ کی طرف دھیان نہ دیں۔ اور درج ذیل آیت کو بکثرت پڑھیں:

 ﴿رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ﴾( سورہ مومنون ، آیت 97، 98)  نیز  اللہ کا ذکر  خصوصاً کلمہ طیبہ بکثرت پڑھنے کااہتمام کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں