بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد سسرال کے زیورات


سوال

 میرے بیٹے کی شادی 2016/12/4کو ہوئی تھی، اور ہم نے زیورات (چودہ تولہ سونا )دیا تھا لڑکی کو،علاوہ حق مہر ۔ اورپھر تقریباً تین سال بعد طلاق واقع ہوگئی اوران کےہاں ایک بیٹی بھی ہوئی ہے ۔ طلاق کے بعد لڑکی والے زیورات دینے سے انکاری ہیں،اورزیورات لڑکی والوں کے قبضہ میں ہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ زیورات دیتے وقت یہ طے نہیں ہوا تھا کہ طلاق ہونے کی صورت میں زیورات لڑکے والوں کو واپس کیاجائے گا۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ زیورات بچی(بیٹی) کی شادی کے وقت اس کو دے دیا جائے گا،جب کہ لڑکا اپنی بیٹی کاخرچہ دینے پر بھی رضا مند ہے اورحقِ مہر دینے پربھی راضی ہے ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ان  زیورات کااصلی حق دار کون ہوگا ؟

1۔لڑکی والوں کے پا س رہے گا ؟  2۔لڑکے والوں کو واپس کیا جائے گا ؟ 3۔بیٹی (بچی ) کی شادی کے وقت اس کو دینا کیسا ہے؟ 

جواب

1،2-سسسرال کی جانب سے ملنے والے زیورات کے بار میں اصول یہ ہے کہ زیورات اگر بطورِ ملکیت لڑکی کو دیے گئے تھے تو لڑکی کےہیں۔ اور اگر عاریت کہہ کر دیے گئے ہیں تو وہ صرف اس کے استعمال کے لیے ہیں ، سسرال والے واپس مانگ سکتے ہیں۔

 اگر دیتے وقت کچھ طے نہ کیا گیا تھاتو   لڑکے  والوں  کا رواج  دیکھا جائے گا، اگر ان کا رواج یہ ہے کہ یہ زیورات محض استعمال کے لیے دیے جاتے ہیں تو پھر سسرال والے مانگ سکتے ہیں، اورآپ مانگیں تو ان پر واپس کرنا لازم ہے، اور اگر ایسا نہیں تو یہ آپ کی طرف سے تحفہ ہی ہے، جیسا کہ عام حالات میں یہ تحفہ ہی ہوتا ہے۔

3- مذکورہ اصول کے مطابق اگر یہ سسرال والوں (یعنی آپ) کا حق بنتا ہے تو وہ اس کو بچی کو بھی دے سکتے ہیں، اور اگر لڑ کی کا حق بنتا ہے  اور وہ بچی کو دینا چاہے تو بھی درست ہے۔

بہر حال بچی کا خرچہ اور لڑکی کا مہر ادا کرنا شوہر پر ہر صورت میں لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها". (3/158، باب المهر، ط:سعید)        

       وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحةً، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هديةً لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحةً، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً". (3/ 153،  کتاب النکاح، باب المهر، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت".(3/157، باب المهر، ط: سعید)        

الفتاوی الهنديةمیں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية". (1 / 327، الفصل السادس عشر في جهاز البنت، ط: رشیدیه)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں