بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایسی کوئی صورت ہے کہ شوہر کے پاس سے طلاق کا حق بالکل ختم ہوجائے؟


سوال

کیا کوئی ایسی صورت ہے جس سے لڑکے کے پاس سے طلاق کا حق ختم ہوجائے۔  مطلب طلاق کے لفظ ادا ہونے سے بھی طلاق نہ ہو ؟

جواب

آدمی بالغ ہو اور جب تک اس کی عقل کام کر رہی ہو تو بیوی کو طلاق کے الفاظ کہنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، البتہ اگر کسی کی عقل کام نہ کر رہی ہو تو ایسی صورت میں طلاق کے الفاظ سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی،  یعنی مجنون، معتوہ (حالتِ غنودگی میں)،  سویا ہوا شخص، بے ہوش،   بچہ وغیرہ، ان سب کی طلاق باوجود طلاق کے الفاظ کی ادائیگی کے، واقع نہیں ہوتی۔

نیز شرعی مجبوری (مثلاً ماہر دِین دار ڈاکٹر کی تجویز کردہ دواؤں) کی وجہ سے اگر دوا کے استعمال سے نشہ طاری ہوجائے، اس میں طلاق کے الفاظ کہہ دینے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی،  البتہ شرعی مجبوری کے علاوہ اگر نشہ کیا ہو تو گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ طلاق کی واقع ہوجاتی ہے، یہی عام صحابہ کرامؓ کا مذہب منقول ہے۔

اس کے علاوہ ایسی صورت نہیں ہے کہ شوہر عاقل و بالغ ہونے اور ہوش و حواس میں ہونے کے باوجود طلاق کے الفاظ ادا کرے اور طلاق واقع نہ ہو۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 99):
"الذي يرجع إلى الزوج فمنها أن يكون عاقلًا حقيقةً أو تقديرًا فلايقع طلاق المجنون والصبي الذي لايعقل؛ لأن العقل شرط أهلية التصرف؛ لأن به يعرف كون التصرف مصلحةً، هذه التصرفات ما شرعت إلا لمصالح العباد، وأما السكران إذا طلق امرأته فإن كان سكره بسبب محظور بأن شرب الخمر أو النبيذ طوعًا حتى سكر وزال عقله فطلاقه واقع عند عامة العلماء وعامة الصحابة -رضي الله عنهم-".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 100):
"ومنها: أن لايكون معتوهًا ولا مدهوشًا ولا مبرسمًا ولا مغميًا عليه ولا نائمًا، فلايقع طلاق هؤلاء؛ لما قلنا في المجنون، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «كل طلاق جائز إلا طلاق الصبي والمعتوه».

ومنها: أن يكون بالغًا، فلايقع طلاق الصبي وإن كان عاقلًا؛ لأن الطلاق لم يشرع إلا عند خروج النكاح من أن يكون مصلحةً، وإنما يعرف ذلك بالتأمل، والصبي لاشتغاله باللهو واللعب لايتأمل فلايعرف". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں