بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کو معلق کرنا


سوال

ایک شخص نے شرط رکھی کہ اگرمیں دو مہینے میں اس مسجد میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق۔ پھر دوبارہ یہ کہا کہ اگر میں اس مسجد میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق۔ یعنی دوبارہ یہی الفاظ کہے،  مگر اس میں دو مہینے کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے بعد دو مہینے تک مسجد نہیں آیا اور دو مہینے بعد مسجد آیا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ اس نے دوبارہ جب بات کی تو اس میں دو مہینے کی شرط نہیں لگائی؛ اس  لیے طلاق ہوگئی ہے اور وہ کہتا ہے کہ طلاق نہیں ہوئی؛  کیوں کہ اس نے دو مہینے کی شرط لگائی تھی۔ تو اب آپ فرمائیں کہ اس سلسلے میں کیا حکم ہے ؟ اس کے ساتھ یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر کوئی شخص طلاق کو مشروط بشرط کردے اور پھر وہ اپنی  شرط بھول جائے کہ اس نے کیا شرط رکھی تھی تو اس صورت میں شرط کے نافذ ہونے کی وجہ سے طلاق واقع ہوگی  کہ نہیں؟

جواب

(الف)  صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ  شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں جو یہ الفاظ ادا کیے کہ "اگر  میں  دو  مہینے میں اس مسجد میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق، پھر  دوبارہ یہ کہا کہ اگر میں اس مسجد میں داخل ہوا تو میری بیوی کو طلاق" تو ان الفاظ سے اس نے اپنی بیوی کو دو معلق طلاقیں دیں ، اور دونوں مشروط طلاق کے الفاظ علیحدہ ہیں  اور چونکہ پہلی طلاق کے بعد شرط نہیں پائی گئی تھی کہ وہ دو ماہ تک اس مسجد میں داخل نہیں ہوا تھا تو پہلی معلق طلاق کے الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ دوسری معلق طلاق کے الفاظ میں مذکورہ شخص نے دخولِ مسجد کو کسی مدت، زمانہ کے ساتھ مقید نہیں کیا تھا بلکہ اسے مطلق رکھا تھا، لہذا دو ماہ کے بعد  جب دخولِ مسجد پایا گیا تو شرط پائے جانے کی وجہ سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ  رجعی واقع ہوگئی ، مذکورہ شخص کو اپنی بیوی کی عدت ( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک ) کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے، عدت کے اندر اگر رجوع کرلیا تو نکاح قائم رہےگا،  وگرنہ بعد از عدت نکاح ختم ہوجائےگا، پھر دوبارہ ساتھ رہنے  کے لیے دونوں کی رضامندی کے  ساتھ  نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول کے ساتھ  تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا، رجوع یا تجدیدِ نکاح دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ  کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا، بشرطیکہ اس سے قبل کوئی طلاق نہ دی ہو۔

"وإذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(الهدایة، ۲/ ۳۸۵، الفتاویٰ الهندیة، کتاب الطلاق، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة: إن وإذا وغیرهما ۱ ؍ ۴۲۰ زکریا ، الدر المختار مع الشامي ۳ ؍ ۳۵۵ کراچی )

(ب)  اگر کوئی شخص طلاق کو مشروط بشرط کرے اور اپنی شرط بھول جائے تو شرط پائے جانے پر طلاق واقع ہوجاتی ہے ، نسیان وقوعِ طلاق  کے لیے مانع نہیں ہوتا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں