بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کا وسوسہ


سوال

کسی  جگہ پر ہم رشتہ دار  بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے،پھر کسی دوسرے  رشتہ دار کی طلاق کا ذکر شروع ہوگیا ، کسی نے کہا کہ وہ اب بھی اس کی بیوی ہے، کسی دوسرے نے کہا کہ وہ اب اس کی بیوی نہیں ہے، اس نے اسے طلاق دے دی تھی۔ کسی نے کہا:ان کی طلاق نہیں ہوئی, کوئی کہنے لگا: ان کی طلاق ہو گئی تھی۔

بس کچھ دیر بعد یہ بحث ختم ہو گئی , ساری بحث کے بعد ایک شخص کو الٹے خیالات اور وسوسے آنے لگے  کہ اس بحث کے دوران  اس نے کوئی ایسی فضول بات تو نہیں کر دی اپنی بیوی کے بارے میں جس  کی وجہ سے اس  کے رشتہِ ازدواج میں کوئی   مسئلہ  ہوجائے, مذکورہ شخص کا ایسا سوچنا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

محض خیالات اور  وسوسوں سے طلاق نہیں ہوتی، اس لیے مذکورہ شخص کو وساوس  کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224):

’’قال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل: موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره. وعن الليث: لا يجوز طلاق الموسوس‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں