بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق ناموں کے اندراج سے طلاق واقع نہیں ہوتی؟


سوال

اگر کسی فارم میں کسی آدمی کے بارے میں لکھا ہو کہ اس نے بیوی کو طلاق دی ہے، یایہ کہ فلاں آدمی اپنی بیوی کو دو گواہوں کی موجودگی میں طلاق دیتاہے، اب کسی آدمی کا کام ان فارم کو کمپیوٹر میں لکھنا اور درج کرنا ہو اور یہ درج کرنے والا شادی شدہ ہے تو کیا اس طرح کی عبارتیں لکھنے سے اس درج کرنے والے کی بیوی کوطلاق ہوگی؟

جواب

کسی شادی شدہ شخص کا ایسا فارم کمپیوٹر میں لکھنا اور درج کرنا کہ جس میں کسی شخص کے متعلق لکھا ہو کہ اس نے بیوی کو طلاق دی یا یہ کہ وہ اپنی بیوی کودو گواہوں کی موجودگی میں طلاق دیتا ہے تو اس سے  لکھنے والے آدمی (جس کاکام فقط اندراج یالکھ کر دینا ہے )کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

جب تک کہ یہ شخص خود اپنی بیوی کو زبانی یا تحریری طلاق نہ دے اس وقت تک اس طرح دیگر لوگوں کے ازدواجی معاملات، طلاق ناموں کے بار بار کمپیوٹر میں  درج کرنے  سے اس شخص کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

رد المحتار (3/250):

"مطلب في قول البحر: إن الصريح يحتاج في وقوعه ديانةً إلى النية

قوله: (أو لم ينو شيئًا ) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح وحققه في النهر احترازًا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ أو حكى يمين غيره فإنه لايقع أصلًا ما لم يقصد زوجته."

الفتاوى الهندية (1/ 353) :

"حكى يمين رجل فلما بلغ إلى ذكر الطلاق خطر بباله امرأته إن نوى عند ذكر الطلاق عدم الحكاية واستئناف الطلاق وكان موصولا بحيث يصلح للإيقاع على امرأته يقع لأنه أوقع وإن لم ينو شيئا لا يقع لأنه محمول على الحكاية كذا في الفتاوى الكبرى."

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں