بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق مکرہ،لفظ خلع سے طلاق کا حکم


سوال

میں نے 19 نومبر 2013 کو کورٹ میرج کی تھی صرف نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی جس میں لڑکی کا بھائی اور والدہ دونوں گواہ کے طورپرشامل ہیں اس رشتے سے لڑکی کے سارے گھروالے رضامند تھے مگر لڑکی کے والد راضی نہیں تھے نکاح کے بعد جب ان کو بتایا تو لڑکی کے والد نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا میں نے منع کردیا اس کے بعد مجھے دھکمی دی سی آئی ڈی پولیس کے ذریعے اٹھوایا اور بہت مارا پیٹا اور طلاق کا مطالبہ کیا میں نے پھر بھی منع کردیا اور مجھ پرجھوٹے کیس لگاکر مجھے جیل بھجوادیا ایک مہینے بعد ضمانت پررہائی ملی توایک دن مجھے دھوکے سے بلوایا اور خود انہوں نے ایک اسٹامپ پیپرپر طلاق نامہ بنایا اور مجھ سے زور زبردستی گن پوائنٹ پر اس پردستخط کروائے اور میرے منہ سے تین دفعہ یہ الفاظ کہلوائے: "میں شہلا بنت مقبول کوخلع دیتاہوں" اور میری آواز بھی ریکارڈ کی ہے، اور نہ کرنے پرمجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ جب کہ میری بیوی اور اس کے گھروالوں کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا ان کو دوماہ بعد پتا چلا۔ میں اور میری بیوی ہم دونوں اپنا نکاح ختم نہیں کرنا چاہتے ہم ہنسی خوشی ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور میری اپنی بیوی کوطلاق دینے کی کوئی نیت نہیں تھی اور نہ ہی میں نے اپنی مرضی سے طلاق دی ہے یہ سب کچھ لڑکی! کے و الد نے زور زبردستی کروایاہے کیوں کہ وہ پولیس میں ہیں اور اسی بدولت یہ سب کچھ کروایاہے۔ میں اور میری بیوی اپنا نکاح ختم نہیں کرنا چاہتے۔قرآن وسنت کی کے حوالے سے مجھے اس کا حل بتائیں کہ ہمارا نکاح برقرارہے؟ ہم ساتھ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں؟ نکاح کے بعد تعلقات بھی قائم ہوئے ہیں۔

جواب

۱۔مذکورہ صورت میں اسٹامپ پیپر پرگن پوائنٹ پرجودستخط لئے گئے ہیں تواس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

۲۔سائل نے زبان سے جوالفاظ ادا کئے ہیں کہ "میں شہلا بنت مقبول کوخلع دیتاہوں" اس سے اگر سائل نے طلاق کی نیت کی ہوتو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔یعنی نکاح ٹوٹ جائے گا۔اب اگردوبارہ ساتھ رہناچاہتے ہیں تو  گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرکے دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ تجدید نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے سائل کوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

ویقع طلا ق کل زوج   بالغ عاقل ولو عبدا او مکرھافان طلاقہ صحیح...... وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية۔[فتاویٰ شامی،جلد:۳،صفحہ: ۲۳۶،مطلب فی الاکراہ،ط:سعید]

البحرالرائق میں ہے:

وذكر في البدائع من الكنايات خالعتك لا على سبيل العوض۔[البحرالرائق،باب الکنایات فی الطلاق،جلد:3،صفحہ:328،مطبوعہ:دارالمعرفۃ بیروت]

وفیہ ایضا:

وأما حكم الخلع فإن كان بغير بدل بأن قال خالعتك ونوى به الطلاق فحكمه أن يقع الطلاق۔[باب النفقۃ،جلد:4،صفحہ:206]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143609200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں