بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق معلق کی ایک صورت کا حکم


سوال

ایک شخص نور احمد ولد محمد امیر، جس نے کراچی میں شادی کی تھی، وہ اکثر اپنی اہلیہ کو بغیر بتائے گاؤں چلے جایا کرتا تھا اور پھر واپس نہ آنے کا کہتا تھا، جس پر اس کے سسرال والوں نے اس سے دو الگ الگ معاہدے کئے،

پہلا معاہدہ یہ تھا کہ اگر میں اب بغیر بتائے دوبارہ کبھی بھی جاؤں تو ایک ماہ بعد میری اہلیہ حنا بنت محمد مسکین کو تین طلاق، یا بتا کر جاؤں اور وقت مقررہ پر واپس نہ آؤں تو ایک ماہ بعد میری اہلیہ کو تین طلاق۔

دوسرا معاہدہ جو کہ 9 جون 2015 کو ہوا تھا، یہ تھا کہ میں اب مستقل کراچی سکونت اختیار کرونگا اور میں اپنے اس معاہدے پر قائم نہیں رہا تو میری اہلیہ کو 9 جولائی 2015 کو 3 طلاق۔

اب 28 ستمبر 2017 کو نور بچے کو دوائی دلانے کا کہہ کر گھر سے نکلتا ہے اور پھر اپنے گاؤں جانے کے لئے صدر پہنچ کر کال کرتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو لیکر گاؤں جا رہا ہوں اب واپس کبھی کراچی نہیں آونگا، پھر کچھ دنوں میں فون پر رابطہ رہنے کے بعد وہ اپنی اہلیہ کو بچہ واپس دینے پر رضا مند ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آکر بچہ لے جاؤ،  لیکن بیوی کے گاؤں جانے کے بعد وہ بچہ دینے سے مکر جاتا ہے مجبوراً اسکی بیوی یعنی حنا بنت محمد مسکین کو وہیں گاوں میں رہنا پڑا۔ آج 16 فروری 2018 کو تقریبا 5 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اسکی اہلیہ اسکے ساتھ ہی گاؤں میں رہ رہی ہے، آپ سے معلوم کرنا ہے کہ کیا حنا کو طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں، کیا مزید وہ نور احمد کے ساتھ رہ سکتی ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے پہلا معاہدہ کرتے وقت یہ جملہ کہا تھا کہ اگر میں اب بغیر بتائے دوبارہ کبھی بھی جاؤں تو ایک ماہ بعد میری اہلیہ حنا بنت محمد مسکین کو تین طلاق، یا بتاکر جاؤں اور وقت مقررہ پر واپس نہ آؤں تو ایک ماہ بعد میری اہلیہ کو تین طلاق، تو  اگر اس نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو تو اس کی بیوی کو تین طلاق واقع ہو گئی تھیاور اگر اس شرط کی خلاف ورزی نہیں کی تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ 

پھر  دوسری مرتبہ معاہدہ کرتے وقت جب یہ کہا  کہ میں اب مستقل کراچی سکونت اختیار کرونگا اور میں اپنے اس معاہدے پر قائم نہیں رہا تو میری اہلیہ کو 9 جولائی 2015 کو 3 طلاق تو ایسی صورت میں اس نے معاہدہ اور اپنی بیوی کی طلاق کو 9 جولائی 2015 سے مشروط کر دیا، یعنی اگر اس کے بعد وہ خلاف ورزی کرتا ہے تو چونکہ طلاق واقع ہونے کی تاریخ گزر گئی تو پھر کوئی طلاق واقع نہ ہو گی اور  آپ کے سوال کے مطابق  وہ 28 ستمبر 2017  کو دوائی دلانے کے لئے نکلا تھا جبکہ طلاق کے واقع کرنے کی تاریخ  9 جولائی 2015 تھی اس لئے اس تاریخ سے پہلے چونکہ وہ نہیں گیا تھا اس لئے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور دونوں کا ساتھ رہنا جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 762)

مطلب في يمين الفور

(قوله فورا) سئل السغدي بماذا يقدر الفور؟ قال بساعة، واستدل بما ذكر في الجامع الصغير: أرادت أن تخرج فقال الزوج إن خرجت فعادت وجلست وخرجت بعد ساعة لا يحنث حموي عن البرجندي

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں